آبِ حَیات {آ + بے + حَیات}

فارسی سے ماخوذ اسم آب کے بعد کسرۂ اضافت لگا کر عربی زبان سے مشتق اسم حیات لگا کر مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً سب سے پہلے 1528ء کو "مشتاق (دکنی ادب کی تاریخ)" میں مستعمل ملتا ہے۔

امرت جس کے پینے سے موت نہیں آتی ۔

مشہور ہے کہ حضرت خضر نے آب حیات پیا ہوا ہے

مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب کا نام جس میں شعرائے اردو کا تذکرہ کیا گیا ہے۔


مترادف ترمیم

آب حیوان


رومن ترمیم

Aab-e-Hayaat

انگریزی ترمیم

nectar

معانی ترمیم

1. وہ روایتی پانی جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ اس کا ایک قطرہ پینے کے بعد انسان امر ہو جاتا ہے۔ (یہ پانی چشمۂ ظلمات میں بتایا گیا ہے، کہتے ہیں کہ حضرت الیاس اور حضرت خضر نے یہ پانی پی کر عمر ابد حاصل کی، لیکن سکندر اس کی تلاش میں بحر ظلمات تک گیا تو بے نیل مرام واپس آیا)، آب بقا، آب حیواں۔

؎ باہر بیان سے ہیں جو ان میں صفات ہیں

تر دامنوں کے حق میں یہ آب حیات ہیں [1]

2. { مجازا } بادشاہوں کے پینے کا پانی؛ صاف ٹھنڈا میٹھا پانی۔

"بادشاہ جب اس مقام پر پہنچے .... تو وہاں آب حیات مانگا اور پانی پی کر دیکھتے ہوئے چلے گئے۔" [2]

3. { مجازا } شراب۔

"حضرت انسان کی گنہگار طبیعت نے اس پر اکتفا نہیں کیا اسے آب طرب اور حیات کے مقدس نام سے پکارنے سے پرہیز نہیں کیا۔" [3]

مترادفات ترمیم

آبِ بَقا کلامِ صاف آبِ حَیواں

حوالہ جات ترمیم

      1 ^ ( 1929ء، مطلع انوار، 47 )
     2  ^ ( 1880ء، آب حیات، 139 )
    3   ^ ( 1923ء، سرگزشت الفاظ، 111 )