آمَد {آ + مَد} (فارسی)

آمدن آمَد

فارسی زبان میں مصدر آمدن سے علامت مصدر ن گرانے سے آمَد بنا۔ فارسی میں بطور صیغہ ماضی مطلق اور حاصل مصدر دونوں طرح مستعمل ہے۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1746ء میں "قصہ مہر افروز و دلبر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ (مؤنث - واحد)

جمع: آمَدیں {آ + مَدیں (یائے مجہول)}

جمع غیر ندائی:اَمدَوں {آ + مَدوں (واؤ مجہول)}


معانی ترمیم

آنے کا عمل، آنے کی خبر، تشریف آوری، ورود۔

"بیس دن تک دشمنوں کی آمد کا انتظار کرتے رہے۔" [1]

میدان جنگ میں آنے کی شان یا دبدبہ وغیرہ۔

؎ کس شیر کی آمد سے جہاں زیرو زبر ہے

روے فلک پیر پہ سورج کی سپر ہے [2]

2. آنے کے آثار۔

؎ آمد نہیں کسی کی تو کیوں جاگتے ہو بحر

رہتا ہے شب کو کوئی بھی بیدار بے سبب [3]

3. نمود، نکلنا، ظاہر ہونا۔

؎ آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست

دود شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست [4]

4. مداخل، آمدنی۔

"قدرت نے مجھ کو سبق دیا کہ کیوں محنت نہ کی اور مفت کی آمد کا خیال کیا۔" [5]

یافت، وصول یابی۔

"شوہر کے مرنے کے بعد تو روپیے کی آمد بند ہو گئی۔" [6]

5. وہ اشعار جو ناٹک کے کسی اہم کردار کے اسٹیج پر آنے سے پہلے گائے جاتے ہیں۔

"جب آمد گائی جا چکتی ہے، پردہ اٹھتا ہے۔" [7]

6. خیالات اور مضامین کے لگاتار اور پے در پے پیدا اور ادا ہونے کی کیفیت۔

"الفاظ کی نشست، زبان کی خوبی، مضمون کی آمد اور سب سے زیادہ پڑھنے والے کے گلے نے ایک سماں باندھ دیا۔" [8]

ادائے مضمون میں بے ساختگی، بے تکلفی، آورد کی ضد۔

"لاکھ قلم کو دوات میں ڈبوتے ہیں، رہ رہ کر سر کھجاتے ہیں، مگر نہ آمد کام دیتی ہے نہ آورد۔" [9]

7. پیداوار کا بازار میں کثرت سے لایا جانا (خصوصاً رسد اور اجناس)، قلت کی ضد۔

"آج کے بازار میں کرانے کی بڑی آمد ہوئی یا غلے کی بڑی آمد ہے۔" [10]

8. گنجفے پچیسی چوسر اور تاش میں زیادہ بازی اور پو گرنے کی صورت حال۔

"اللہ ری آمد ہرجم میں میر وزیر اٹھتے ہیں، پو کی آمد جو شروع ہوئی تو چار ہی ہاتھوں میں چاروں گوٹیں لال تھیں۔" [11]

مترادفات ترمیم

مُقَدَّم بے ساخْتَگی وُرُود مُحاصِل رِشْوَت اَفْرَاط تَشْرِیف آوْری

مرکبات ترمیم

آمَد آمَد، آمَد نامَہ، آمَد و شُد، آمَدو خَرْچ

روزمرہ جات ترمیم

آمد آمد پھیلنا

آنے کی خبر مشہور ہونا۔

؎ پھیلی جو آمد آمد رشک شکستہ پا دیوار قلعہ نیو سے بیٹھی پراگ میں [12]

آمد آمد لگنا

آنے کی دھوم ہونا۔

؎ آمد آمد لگ رہی ہے باغ میں اوس سروکی باغباں شمشاد کو جڑ سے اوکھاڑا چاہیے [13]

آمد و رفت لگانا

بار بار آنا جانا، جیسے : تم نے یہ کیسی آمد و رفت لگائی ہے۔ (ماخوذ : امیراللغات، 175:1)

رومن ترمیم

aamad

حوالہ جات ترمیم

    1   ^ ( 1914ء، سیرۃ النبی، 10:4 )
    2   ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 1 )
    3   ^ ( 1836ء، ریاض البحر، 70 )
    4   ^ ( 1869ء، غالب، دیوان، 164 )
    5   ^ ( 1919ء، آپ بیتی، حسن نظامی، 64 )
    6   ^ ( 1924ء، اودھ پنچ، لکھنؤ، 37:9، 6 )
    7   ^ ( 1853ء، اندرسبھا، امانت، (مع شرح)، 84 )
    8   ^ ( 1928ء، آخری شمع، 35 )
    9   ^ ( 1953ء، ظفر علی خان، ایڈیٹر کا حشر، 13 )
    10   ^ ( 1891ء، امیرالغات، 174:1 )
    11   ^ ( 1891ء، امیراللغات، 174:1 )
    12   ^ ( 1867ء، رشک (امیراللغات، 175:1) )
    13   ^ ( 1854ء، دیوان صبا، غنچہ آرزو، 177 )