زُبان {زُبان} (فارسی)

اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ 1657ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

متغیّرات


زَبان {زَبان}

اسم نکرہ [1]

جمع: زُبانیں {زُبا + نیں (ی مجہول)}

جمع غیر ندائی: زُبانوں {زُبا + نوں (واؤ مجہول)}

معانی ترمیم

1. منھ کے اندر کا وہ عضو جس میں قوت ذائقہ ہوتی ہے اور جو نطق کا آلہ ہے۔

"زبان تھی کہ الامان ایک منہ بیسیوں کو سنے اور [[ایک سانس میں]] سینکڑوں فضیتحیاں۔"، [2]

2. بولی جس کے ذریعے انسان تکلم یا تحریر کی صورت میں اپنے خیالات اور جذبات ظاہر کرتا ہے۔

"قرآن کریم کی زبان عربی تھی۔"، [3]

3. بول چال، روز مرہ۔

؎ اچھا ہو دل کے دام جو دل ہی سے پوچھ لو

میری زباں رہے، نہ تمہاری زباں رہے، [4]

4. انداز بیان، بات کرنے کا ڈھنگ۔

؎ باتیں رہیں یہ اور کسی سے کہ اب ہمیں

گالی تری پسند نہ تیری زبان پسند [5]

قلم کی نوک۔

؎ لو کاٹتا ہے غیظ سے اپنی زبان قلم

یہ وہ ہے جس پر فوج خدا کا رہا علم [6]

تیرو خنجر وغیرہ کی نوک، نیز استعاۃً زبان خنجر سے خود خنجر مراد لیتے ہیں۔

؎ ابرو کی کھنچیں ہوئیں کمانیں

پلکیں تھیں کہ تیر کی زبانیں [7]

5. شعلہ۔

؎ اُوسی آگ میں کا ہوں میں یک زبان

تو کرتا ہوں اس دھات شعلہ فشاں، [8]

6. { تصوف } اسرار الٰہی کو کہتے ہیں۔

(مصباح التعرف)

7. { جوتا سازی } منڈے کے پاکھوں کے نیچے کی چمڑی کی پٹی۔ (اصطلاحات پیشہ وراں)

انگریزی ترجمہ ترمیم

the tongue; tongue, speech, language, dialect

مترادفات ترمیم

لِسان، بولی، بھاشا، لُغَت،

مرکبات ترمیم

زُبان آرائی، زُبان آوَر، زُبان آوَری، زُبان بُرِیَدہ، زُبان بَسْتَگی، زُبان بَسْتَہ، زُبانِ بے زُبانی، زُبان چَرْب، زُبان چَرْبی، زُبانِ حال، زُبان خامَہ، زُبان داب کَر، زُبان دان، زُبان دانی، زُبان دَبا کَر، زُبان دَراز، زُبان دَرِیدَہ، زُبان زَد، زُبان زَدِ خَلائِق، زُبان زوری، زُبانِ شَمْع، زُبان شَناسی، زُبانِ شِیرِیں، زُبان فَہْم، زُبانِ قال، زُبانِ قَلَم، زُبان کا پابَنْد، زُبان کا چَٹورا، زُبان کا زَخْم، زُبان کا شِعْر، زُبان کا کَچّا، زُبان کا کَڑْوا، زُبان کا مِیٹھا، زُبان کُشائی، زُبان کی بان، زُبان کی حَلاوَت، زُبان کی صَفائی، زُبان کی کاٹ، زُبان کی موچ، زُبان گِیر، زُبان گِیری، زُبانِ مُعْجِزْ بَیان، زُبانِ مُعَلّٰی، زُبان بَنْدی، زُبان پَر، زُبانِ خَلْق، زُبان دَرازی، زُبان زَدِ عام، زُبان مُبارَک

حوالہ جات ترمیم

  1. ( مؤنث - واحد )
  2. ( 1908ء، صبح زندگی، 24 )
  3. ( 1984ء، ترجمہ: روایت اور فن، 19 )
  4. ( 1936ء، شعاع میر، ناراین پرشاد ورما، 153 )
  5. ( 1885ء، دیوان سخن، 101 )
  6. ( 1874ء، انیس، مراثی، 224:1 )
  7. ( 1881ء، مثنوی تیرنگ خیال، 166 )
  8. ( 1657ء، گلشن عشق، 38 )

مزید دیکھیں ترمیم

فارسی ترمیم

اسم ترمیم

زبان

  1. زبان