آئی{1} {آ + ای} (سنسکرت)

آنا آئی

سنسکرت زبان سے ماخوذ اردو زبان کے صدر آنا سے صیغہ حالیہ تمام مشتق ہے اردو میں بطور اسم اور اسم صفت بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1802ء میں میر کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ (مؤنث - واحد)

معانی ترمیم

موت، قضا۔ ؎ دل کسی طرح چین پا جائے

غیر کی آئی مجھ کو آ جائے [1]

2. موقع، محل، باری۔

؎ لگا تو لاکھ منھ غیروں کو جو حق ہے وہ کہہ دیتے

بہت ہم ضبط کرتے پر نہ آئی پر رہا جاتا [2]


صفت ذاتی [3]

جنسِ مخالف: آیا {آ + یا}

جمع: آئِیں {آ + اِیں}

معانی 1. آئی ہوئی، موصول شدہ۔

؎ نہ تو کچھ آئی کی شادی نہ گئی کا غم تھا

خود طرحدار تھی جوبن تھا عجب دم خم تھا [4]

مترادفات ترمیم

اَجَل بَلا قَضا مَرْگ مُصِیبَت

مرکبات ترمیم

آئی گَئی، آئی گَئی کا سَودا، آئی ہُوئی

روزمرہ جات ترمیم

آئی بلا ٹلنا

آئی بلا ٹالنا کا فعل لازم ہے۔

؎ زاہد تو چلہ کش ہی رہا اور یہاں کلیم جب لو لگی خدا سے تو آئی بلا ٹلی [5]

آئی عقل جانا

بدحواس ہو جانا، گھبرا جانا۔

؎ بات دل کی نہ لب تک آتی تھی فکر میں آئی عقل جاتی تھی [6]

آئی کر لینا

طے کر لینا، مختتم طور پر فیصلہ کر لینا۔

؎ دل کو وہ مول لے کر کہتے ہیں فکر کیا ہے یہ چیز آئی کر لی قیمت بھی مل رہے گی [7]

آئی کو ٹالنا

آئی ہوئی آفت یا مصیبت دور کرنا؛ موت سے بچا لینا۔

؎ آئی کو ٹال دے جبھی جانیں دم بخود ہے تو پھر خدا کیا ہے [8]

آئی ہوئی (کو ٹالنا | ٹلنا | ٹالنا)

؎ آتے وہ تو فرقت کے دکھ کیا ہیں اجل کیسی آئی ہوئی ٹل جاتی آئے ہوے ٹل جاتے [9]

آئی ہوئی لچھمی کو لوٹانا

ملتی ہوئی نعمت کو ٹھکرا دینا، ہاتھ آئی ہوئی کامیابی کو رد کر دینا۔

تو بڑی بدنصیب ہے کہ بھری تھالی کو دھکا دیا، آئی ہوئی لچھمی کو لوٹا دیا۔" [10]

آئی بلا (کو) ٹالنا

آئی ہوئی مصیبت دور کرنا۔

خدا نے بھی ان کی آئی بلا ٹالی اور دہلی میں بم سے جان بچائی۔" [11]

آواز بھرنا

(گراموفون یا ٹیپ ریکارڈ وغیرہ میں) تقریر، گانا یا کوئی اور آواز منتقل کر لینا۔

ایک گراموفون میں جب ایک کاریگر اور موجد چند بری بھلی آوازیں بھرتا ہے تو ..... کام دیتیں اور قائم رہتی ہیں۔" [12]

فقرات ترمیم

آئی (تو) روزی نہیں تو روزہ

کچھ مل گیا تو کھا پی لیا نہیں تو فاقہ کر لیا، توکل و قناعت پر گزر بسر ہے۔

؎ یہ توکل سے حال اپنا ہے آئی روزی نہیں تو روزہ ہے [13]

آئی تھی آگ کو رہ گئی رات کو

{ بلاغت } بے غیرت ہے، بدچلن ہے، بدچلنی کے لیے ذرا سا بہانہ کافی ہے۔ (ماخوذ : امیراللغات، 310:1؛ نوراللغات، 216:1

آئی ٹلنا

آئی کو ٹالنا کا فعل ہے

؎ کیونکر آئی کسی مہجور کی ٹل جاتی ہے دیکھنی ہو تو مرے پاس ذرا آ جانا [14]

آئی موج فقیر کی دیا جھونپڑا پھونک

ایسے آزاد طبیعت اور بے پروا شخص کیلءے مستعمل جو اپنے نقصان کی پروا نہ کرے۔ (نجم الامثال، 36؛ نوراللغات، 216:1)

آئی ہے جان کے ساتھ جائے گی جنازے کے ساتھ

جس شخص کی عادت نہ بدلے اس کے لیے مستعمل۔

وہ بھلا اپنی عادت کاہے کو بدلیں گے آئی ہے جان کے ساتھ جائے گی جنازے کے ساتھ۔" [15]


رومن ترمیم

Aai

تراجم ترمیم

انگریزی: Doom ; death ; calamity

حوالہ جات ترمیم

     1  ^ ( 1932ء، ریاض رضواں، 278 )
     2  ^ ( 1872ء، عاشق لکھنوی، فیض نشان، 58 )
     3 ^ ( مؤنث - واحد )
      4 ^ ( 1864ء، واسوخت رعنا (شعلۂ جوالہ، 409:2) )
      5 ^ ( 1889ء، تجلیات کلیم (علی بن الحسین)، 1 )
     6  ^ ( 1882ء، فریاد داغ، 106 )
      7 ^ ( 1905ء، یادگار داغ، 168 )
     8  ^ ( 1957ء، یاس و یگانہ، گنجینہ، 68 )
      9 ^ ( 1941ء، فانی، کلیات، 240 )
     10  ^ ( 1894ء، کامنی، سرشار، 280 )
     11  ^ ( 1913ء، انتخاب توحید، 106 )
      12 ^ ( 1908ء، اساس الاخلاق )
     13  ^ ( 1876ء، سخن بے مثال، 138 )
     14  ^ ( 1936ء، شعاع مہر، 9 )
     15  ^ ( 1874ء، انشاء بادی النساء، 123 ) 

مزید دیکھیے ترمیم

آئی

آئی 3