آزار {آ + زار} (فارسی)

آزردن آزار

فارسی مصدر(لازم) آزُرْدَن سے آزارِیْدَن تعدیہ ہے اور آزارِیْدَن سے آزاد حاصل مصدر ہے۔ سب سے پہلے 1611ء میں قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت (مؤنث - واحد)

جمع: آزاریں {آ + زا + ریں (یائے مجہول)}

جمع غیر ندائی: آزاروں {آ + زا + روں (واؤ مجہول)}

معانی

ترمیم

ایذا، تکلیف، رنج، دکھ دینا۔

؎مرض عصیان کا وہ کھوتی ہے آزار تلاش اس میں

بھلا پھر کیمیا خاک شفا سے خاک بہتر ہے [1]

2. مرض، بیماری، روگ، عارضہ۔

؎ بظاہر مٹ چکا ہے عشق کا آزار لیکن پھر

طبیعت ہر گھڑی رہ رہ کے کیوں غمگین ہوتی ہے [2]

3. جنجال، بکھیڑا، وبال جاں۔

؎ دل کہا کرتے ہیں جس چیز کو دنیا والے

ایک آزار ہے ہر وقت مری جاں کے ساتھ [3]

4. آسیب، بھوت پریت، جن و پری کا اثر یا سایہ۔

؎ یقیں مرے مرنے کا آیا نہ ان کو

کہا ہو گیا ہے کچھ آزار دیکھو [4]

5. خرابی، بگاڑ، جیسے : خدا جانے اس گھڑی میں کیا آزار ہے کہ چلتے چلتے رک جاتی ہے۔

مترادفات

ترمیم

بِیماری عارْضَہ روگ صُعُوبَت تَکْلِیف سَخْتی

متضادات

ترمیم

سُکُون آرام

مرکبات

ترمیم

آزار رَساں، آزاردِہ

روزمرہ جات

ترمیم

آزار پہنچانا

دکھ دینا، ستانا۔

"شمرانہ و غاشیہ ملعونہ ملکۂ صبح روشن گہر کی شکل سے مجھ کو انواع اقسام کے آزار پہونچاتی تھیں۔" [5]

آزار کھانا

مصیبت اٹھانا، تکلیف سہنا، دکھ جھیلنا۔

؎ توں تو صحی ہے لشکری کر نفیس گھوڑا سارتوں ہوے نرم نہ تجھ او چڑے بس کھائے گا آزار توں [6]

آزار اٹھانا

صدمہ برداشت کرنا، دکھ درد جھیلنا، تکلیف سہنا۔

؎ کیا کیا نہ رہ شام میں آزار اٹھایا

روئی کبھی بابا کو تو خولی نے ستایا [7]

آزار آنا

تکلیف یا رنج پہنچانا، مصیبت نازل ہونا۔

؎ دوستو دل کہیں زنہار نہ آنے پائے

دل کے ہاتھوں کوئی آزار نہ آنے پائے [8]

(کسی عمل وغیرہ میں) خلل پڑنا، کسی بات یا کام پر آنچ آنا۔

؎ دے جام در پہ جم گئے میخوار ساقیا

لیکن وضو پہ آئے نہ آزار ساقیا [9]

آزار پانا

؎ نہ کھایا تھا کبھی خون جگر ہم نے مگر

کھایا نہ پایا تھا کبھی آزار الفت میں مگر پایا [10]

آزار پڑنا

مرض عارض ہونا، روگ لگنا۔

؎ پڑا وہ بے کلی کا دِل میں آزار

نظر میں گل چمن کے صورت خار [11]

رومن

ترمیم

Aazar

تراجم

ترمیم

انگریزی : Illness; ailment; malady; woe; injury; disease;

حوالہ جات

ترمیم
     1  ^ ( 1931ء، محب، مراثی، 199 )
     2  ^ ( 1927ء، میخانۂ الہام، 381 )
     3  ^ ( 1948ء، آئینۂ حیرت، 4 )
     4  ^ ( 1814ء، مہجور(فرہنگ آصفیہ، 156:1) )
     5  ^ ( 1891ء، بوستان خیال، 80:9 )
     6  ^ ( 1624ء، سید شہباز حسینی (دکنی ادب کی تاریخ، 26) )
     7  ^ ( 1912ء، شمیم مرثیہ سوز خوانی (قلمی نسخہ)، 9 )
     8  ^ ( 1836ء، ریاض البحر، 263 )
     9  ^ ( 1893ء، ریاض شمیم، 4:1 )
     10  ^ ( 1905ء، داغ (نوراللغات، 95:1) )
     11  ^ ( 1862ء، طلسم شایاں، 67 )