آزمودہ
آزْمُودَہ {آز + مُو + دَہ} (فارسی)
آزمودن آزْمُودَہ
فارسی مصدرآزمُوْدَنْ سے علامت مصدرن گرا کر ہ بطور لاحقۂ حالیہ تمام لگانے سے آزمودہ بنا جوکہ فارسی میں حالیہ تمام اور اسم صفت دونوں طرح مستعمل ہے اور اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے، سب سے پہلے 1854ء میں "دیوان اسیر" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی
جمع: آزْمُودَگان {آز + مُو + دَگان}
معانی
ترمیم1. جانچا ہوا، پرکھا ہوا، تجربے میں آیا ہوا، مجرب۔
"آدھی رات ..... حضور قلب کے لیے وقت مناسب ہے جس کو مقبولیت دعا میں مدخل عظیم ہے اور یہ آزمودہ بات ہے۔" [1]
مترادفات
ترمیمکَرْدَہ مُجَرَّب تَجْرِبَہ کار
مرکبات
ترمیمآزْمُودَہ کار
روزمرہ جات
ترمیمآزمودہ لینا
عندیہ لینا، منشا دریافت کرنا، ٹوہ لینا، بھید نکالنا۔
"وہ تو اسد کا آزمودہ لینے کے لیے دم دے رہی تھی۔" [2]
امتحان لینا، جانچنا۔
"میاں تم ہمارا آزمودہ لینے آئے ہو۔" [3]
رومن
ترمیمAazmudah
تراجم
ترمیمانگریزی : Experienced; tried; tested; proved
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( 1906ء، الحقوق و الفرائض، 3، 149 ) 2 ^ ( 1962ء، آفت کا ٹکڑا، 206 ) 3 ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 158:1 )