آستاں
آسْتان {آس + تان} (فارسی)
سنسکرت میں ستاں اور ہندی میں استھان اور فارسی میں آستان ہے۔ سنسکرت کے اثرات کی وجہ سے یہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ اصل ماخذ سنسکرت ہی ہے، ہندی اور فارسی میں سنسکرت سے ہی یہ لفظ داخل ہوا ہے۔ البتہ اردو اور فارسی میں چونکہ یکساں ہے لہٰذا فارسی اثرات کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فارسی سے یہ لفظ بلاواسطہ اردو میں آیا۔ سب سے پہلے1645ء میں "قصہ بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ [1]
واحد غیر ندائی: آسْتانے {آس + تانے}
جمع: آسْتانے {آس + تانے}
جمع غیر ندائی: آسْتانوں {آس + تا + نوں (و مجہول)}
معانی
ترمیمچوکھٹ، دہلیز، دروازہ۔
؎ دامن صحرا میں چل کر یوں گزارا چاہیے
سر میں ہو بیتاب سودا آستاں کوئی نہ ہو [2]
2. بارگاہ، دربار۔
"منگل کے دن ہر فرقے کے لوگ آستان خلافت میں جمع ہوتے تھے۔" [3]
مکان
؎ جو عرش پر گیا تھا وہ اس گھر میں ہے مقیم
اونچا ہے آسمان سے بھی آستان دل [4]
3. بزرگان دین یا اولیاء اللہ کا مزار یا اس کا احاطہ وغیرہ، درگاہ۔
؎ مدفون جو یہاں ہیں بے شبہ جنتی ہیں
ٹکڑا بہشت کا ہے خود آستان خواجہ [5]
انگریزی ترجمہ
ترمیمThreshold; door, entrance; entrance to shrine; abode of a faqir or a holy man
مترادفات
ترمیمبَارْگاہ چَوکھَٹ مَزار ڈیوْڑھی
مرکبات
ترمیمآسْتان بوس
رومن
ترمیمAastan
Aastanah
تراجم
ترمیمانگریزی : Threshold; entrance; tomb of a saint
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( مذکر، مؤنث - واحد ) 2 ^ ( 1941ء، صبح بہار، 73 ) 3 ^ ( 1902ء، علم الکلام، 43:1 ) 4 ^ ( 1919ء، در شہوار، بیخود، 43 ) 5 ^ ( 1945ء، نادان، لغت کبیر اردو، 287:1 )