آشفتہ نوا
آشُفْتَہ نَوا {آ + شُف + تَہ + نَوا} (فارسی)
فارسی مصدر آشفتن سے مشتق صیغہ حالیہ تمام آشفتہ کے ساتھ فارسی زبان سے ہی ماخوذ اسم نَوا ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ 1869ء کو "دیوان غالب" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی
جمع غیر ندائی: آشُفْتَہ نَواؤں {آ + شُف + تَہ + نَوا + اوں (و مجہول)}
-=معانی=
ترمیمجس کی آواز، کلام یا بیان دل خراش
ہو یا اس میں غم و غُصہ اور تلخی پائی جائے۔
؎ وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالب آشفتہ نوا کہتے ہیں [1]
مترادفات
ترمیمنالاں خَراب و خَسْتَہ فَرْیاد کُناں )
رومن
ترمیمaashuftah nawa
حوالہ جات
ترمیم^ ( دیوان غالب، 187، 1869