آغوش
آغوش {آ + غوش (واؤ مجہول)} (فارسی)
یہ اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے بطور اسم جامد مستعمل ہے۔ اردو زبان میں بھی اصلی حالت اور معنی کے ساتھ مستعمل ہے۔ 1810ء کو "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر، مؤنث - واحد)
جمع: آغوشیں {آ + غو (واؤ مجہول) + شیں (یائے مجہول)}
جمع استثنائی: آغوشوں {آ + غو (واؤ مجہول) + شوں (واؤ مجہول)}
معانی
ترمیم1. گود، کولی، وہ حلقہ جو دونوں ہاتھ پھیلا کر کسی کو دبوچنے اور سینے سے چمٹانے میں بنتا ہے، وہ حلقہ جو کسی کو اٹھا کر اپنی بغل اور کوکھ سے لگانے اور سینے سے چمٹانے میں بنتا ہے۔
؎ مجھے آغوش مادر ہیں بھڑکتی آگ کے شعلے
نہیں ہے فرش انگاروں کا کم پھولوں کے بستر سے [1]
2. پہلو۔
؎ کوچہ محبوب میں جو جو پہنچ کر مر گئے
ان کو آغوش پری آغوش مدفن ہو گیا [2]
3. { تعمیرات } چنائی میں دو اینٹوں یا پتھروں کے درمیان حلقہ نما خالی جگہ۔
"اس (بندش) میں کوشش کی جاتی ہے کہ آغوش یا گرفت کی ممکنہ مقدار انتہائی ہو۔" [3]
انگریزی ترجمہ
ترمیمembrace, bosom
مترادفات
ترمیمگودی جھولی پَہْلُو بَغَل گود{2}
مرکبات
ترمیمآغوش کا پالا، آغوش کُشادَہ، آغوش کُشائی، آغوشِ لَحَد
رومن
ترمیمAaghosh
تراجم
ترمیمانگریزی : Embrace; lap; bosom
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( 1929ء، مطلع الانوار، برق دہلوی، 80 ) 2 ^ ( 1881ء، دیوان ماہ، عنایت علی، 34 ) 3 ^ ( 1948ء، رسالہ رڑکی، چنائی، 4 )