آلائش
آلائِش {آ + لا + اِش} (فارسی)
آلودن آلائِش
فارسی زبان میں مصدر آلودن سے حاصل مصدر مشتق ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1635ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مؤنث - واحد) جمع: آلائِشیں {آ + لا + اِشیں (ی مجہول)} جمع غیر ندائی: آلائِشوں {آ + لا + ئِشوں (و مجہول)}
معانی
ترمیممیل کچیل، گندگی (خواہ خشک ہو یا تر)۔
"شکر ستار مطلق کیا کہ بدن کی آلائش گئی۔" [1]
2. پیٹ کی انتڑیاں وغیرہ جن میں بول و براز اور غلیظ مواد رہتا ہے، اوجھ۔
"بادشاہ کے سامنے آلائش صاف کر کے بھیڑیں بھی لائی جاتی ہیں۔" [2]
بول و براز
"بڑھیا کے پاس ایک گائے تھی آتے جاتے قصر شاہی میں الائش کرتی۔" [3]
3. پھوڑے کی پیپ اور گندا خون۔
؎ ہے کہیں ناسور خون دل کی چشم
دم بہ دم نکلی ہے آلائش نئی [4]
4. آلودگی، نجاست باطنی، لوث، عیب کی بات میں ملوث رہنے کا عمل۔
"نہ ان کو گناہوں کی آلائش سے پاک کرے گا۔" [5]
مکروہ بات، وہ بات یا چیز جو کسی کے لیے اس کی شان کے لحاظ سے عیب ہو۔
"چھپا کر دینے کی صورت اس لیے بھی اچھی ہے کہ دینے والا نمائش اور شہرت طلبی کی آلایشوں سے اپنے اخلاق کو محفوظ رکھ سکے گا۔" [6]
5. وہ گندگی اور فاضل چیزیں جو زچگی کے وقت بچے کے ساتھ ساتھ ماں کے پیٹ سے خارج ہوتی ہیں، آنول نال۔
؎ نہ ختنے کی ہوئی حضرت کو حاجت
نہ آلائش تھی کچھ وقت ولادت [7]
متغیّرات
ترمیمآلایِش {آ + لا + یِش}
انگریزی ترجمہ
ترمیمPollution, contamination; filth; garbage; inconvenience, anxiety
مترادفات
ترمیمگَنْدَہ مَواد غَلاظَت آلُودَگی
رومن
ترمیمAalaish
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( 1868ء، سرور، انشائے سرور، 16 ) 2 ^ ( 1920ء، رہنمائے قلعہ دہلی، 33 ) 3 ^ ( 1824ء، سیر عشرت، 16 ) 4 ^ ( 1813ء، پروانہ (جسونت سنگھ)، کلیات، 350 ) 5 ^ ( 1895ء، ترجمہ قرآن، نذیر احمد، 40 ) 6 ^ ( 1935ء، سیرۃ النبی، 272:5 ) 7 ^ ( 1855ء، ریاض المسلمین، اسیر، 28 )