آماج گاہ {آ + ماج + گاہ} (فارسی)

فارسی زبان سے ماخوذ اسم آماج کے ساتھ لاحقہ ظرف گاہ لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ 1739ء میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ (مذکر - واحد)

جمع: آماج گاہیں {آ + ماج + گا + ہیں (ی مجہول)}

جمع غیر ندائی: آماج گاہوں {آ + ماج + گا + ہوں (و مجہول)}

معانی

ترمیم

نشانہ، ہدف، جس چیز یا جس مقام کو تاک کر تیر یا گولی لگائیں۔

؎ آماج گاہ تیر حوادث ہوں رات دن

پتلا بنا ہوا ہوں غم روزگار [1]

2. { مجازا } میدان، کسی کیفیت یا کیفیات وغیرہ کی جائے ورود و اجتماع۔

؎ مجھ کو کہتا ہے جہاں عالم پناء آرزو

میری بزم ناز ہے آماج گاہ آرزو [2]

رومن

ترمیم

aamajgah

تراجم

ترمیم

انگریزی:A mark to fire at for practice; object of desire or ambition

حوالہ جات

ترمیم
    1   ^ ( کلیات اکبر، 1921ء، 5:2 )
    2   ^ ( نقوش مانی، 1916ء، 33 )