آنٹ
آنْٹ {آنْٹ (ن مغنونہ)} (ہندی)
یہ لفظ ہندی زبان سے ماخوذ ہے۔ اردو میں اپنی اصلی حالت اور معنی میں ہی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1780ء میں سودا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مؤنث - واحد)
جمع: آنْٹیں {آں + ٹیں (یائے مجہول)}
جمع غیر ندائی: آنْٹوں {آں + ٹوں (واؤ مجہول)}
معانی
ترمیمگرہ، گانْٹھ، گتھی۔
"دیکھیے میرے انگوٹھے اور انگلی میں یہ آنٹ اب تک موجود ہے۔" [1]
البیٹ، پیچ، وہ کنارہ جو بندش کے وقت اڑسا جاتا ہے۔
"دھوتی کی آنٹ کھل گئی۔" [2]
باڑ کی بندش کا پھندا۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 91:1)
2. کدورت، دشمنی، لاگ ڈانٹ، کپٹ، حسد۔
"پھر پوچھا "اس سے کسی اہیر کی آنٹ نہیں ہے"? معلوم ہوا اسی کے چچیرے بھائی مگھوا سے اس سے آج کل خوب چلی ہوئی ہے۔" [3]
3. سونے چاندی کا کھرا پن پرکھنے کے لیے تپانے سے پہلے ریتی کی رگڑ یا گھسّا۔ (پلیٹس، مہذب اللغات، 19:2)
4. { قفل سازی } قفل کے منہ کے ڈھکنے کی روک کو بنی ہوئی چولیں (کھانچے) جس میں ڈھکنے کی کوزیں اٹکی رہتی ہیں اور ڈھکنا اوپر نیچے سرکانے میں اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 1:7)
مترادفات
ترمیمرُکاوَٹ دُشْمَنی گِرَہ تَہ
روزمرہ جات
ترمیمآنٹ پڑنا
دلوں میں فرق آنا، لاگ ڈانٹ ہونا، دشمنی ہونا۔ (مخزن المحاورات، 63)
آنٹ چڑھنا
ہاتھ لگنا، قابو میں ہونا، انٹی میں آنا۔
؎ ٹھگ نہ تنہا چڑھے ہیں اس کی آنٹ
مل رہی ہے اچکوں سے بھی سانٹ [4]
رومن
ترمیمaant
تراجم
ترمیمانگریزی:twist; a knot; envy; malice; enmity
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( 1908ء، عیاروں کا عیار، 144 ) 2 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 144:1 ) 3 ^ ( 1958ء، میلہ گھومنی، علی عباس حسینی، 33 ) 4 ^ ( 1780ء، سودا، کلیات، 378:1 )