آنک
آنْک {آنْک (ن مغنونہ)} (سنسکرت)
سنکسرت سے ماخوذ ہے اردو زبان میں اپنی اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1739ء میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مؤنث - واحد)
جمع ندائی: آنْکیں {آں + کیں (ی مجہول)}
جمع غیر ندائی: آنْکوں {آں + کوں (واؤ مجہول)}
معانی
ترمیمجانچ، تخمینہ، اندازہ۔
"اس حال میں تمہاری آنْک ٹھیک نہیں ہے کسی اور کو دکھانا چاہیے۔" [1]
2. علامت، نشان (جو قیمت فروخت ظاہر کرنے کے لیے سامان پر ڈالی ہو)، مہر، سکوں کے حروف اور ہندسے وغیرہ۔ (ماخوذ : پلیٹس، امیراللغات، 195:1)
3. حروف تہجی کا کوئی حرف۔
؎ پوتھی خیال یار کی آئی ہے جب سیں ہات
دل کے ورق پہ تب سیتی لکھتا ہوں غم کی آنک [2]
4. { ریاضی } ہندسہ، عدد، صفر۔
"حساب کرنے کے اصل آنک دس ہیں۔" [3]
اصل رقم / شرح اور مدت کا حاصل ضرب۔
"100 پکے آنکوں کا وہی سود ہوتا ہے جو سو روپیے کا۔" [4]
5. خم، جھکاؤ (جیسے ہک میں)، کولھے کے اوپر بغل تک کا حصہ جسم، آغوش، حصہ بخرا۔ (پلیٹس)
مترادفات
ترمیمعَلامَت شناخْت داغ ہِنْدْسَہ
رومن
ترمیمaank
تراجم
ترمیمانگریزی : A letter; dot; test; examination
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 195:1 ) 2 ^ ( 1739ء، کلیات سراج، 299 ) 3 ^ ( 1834ء، تعلیم نامہ، 77:1 ) 4 ^ ( 1915ء، مہاجنی حساب، 21 )