اردو

ترمیم

اشتقاقیات

ترمیم

سنسکرت زبان کے لفظ آکش سے ماخوذ ہے قدیم زمانے میں آنکہ اور آنک بھی استعمال ہوتا رہا لیکن آنکھ ہی رائج ہوا سب سے پہلے 1503ء میں "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

آنکھ مؤنث

آنکھ
اسم نکرہمؤنثواحد
جمع آنْکھیں (آں + کھیں [ی مجہول])
جمع غیر ندائی آنْکھوں (آں + کھوں [و مجہول])
معانی استعمال
1 اولا — وہ عضو جس سے دیکھتے ہیں، آلہ بصارت۔
کہیں کس سے کہ ہیں تعبیر اک خواب مسرت کی
یہ آنکھیں اشک ریز اپنی یہ دامن خونچکاں اپنا
[1]
2 مجازا — دیکھنے کی قوت، بصارت، نگاہ، نظر، بینائی چشم۔
دل چرایا ہے وہ اب آنکھ ملائیں کیونکر
سامنے ہوتی ہے مشکل سے گنہگار کی آنکھ
[2]
دیکھنے کی صلاحیت۔ "حاکم کے آنکھ نہیں ہوتی کان ہوتے ہیں۔" [3]
3 دیکھنے کا انداز(جس سے دل کا حال معلوم ہو جائے)، تیور۔
دبدبہ بھی ہے وہی طرز سخن بھی ہے وہی
آنکھ بھی ہے وہی ابرو کی شکن بھی ہے وہی
[4]
4 مشاہدہ، دیکھنے کا عمل۔
سنی سنائی پہ ایقان واہ کیا کہنا
بغیر آنکھ کے عینی گواہ کیا کہنا
[5]
5 توجہ، رجحان، نظر التفات، نگاہِ رغبت۔
صاحب کی آنکھ اب جو عروس اجل پہ ہے
اپنی بھی آنکھ خالق عز و جل پہ ہے
[6]
6 مروت، لحاظ، پاس۔
دم توڑتی ہوں پیاس سے تم پر اثر نہیں
کل تک جو تھی وہ آنکھ نہیں وہ نظر نہیں
[7]
7 تمیز، شناخت، امتیاز، اٹکل، پرکھ۔ "اس کے خاوند کو جواہرات کی آنکھ تھی۔" [8]
8 بصیرت، چشم معرفت، بالغ نظری، عقل، سمجھ۔ "میں دعا دیتا ہوں کہ خدا پٹنہ والوں کو سمجھ اور آنکھ دے۔" [9]
9 اشارہ، ایما۔
صحبت کا رقیبوں کی ہے ادنٰی یہ کرشمہ
جو آنکھ سے فرماتے ہیں وہ دل میں نہیں ہے
[10]
10 مہارت، مشق، دخل۔
ہشیار اسیر آنکھ ہے تجکو جو سخن میں
رکھتے ہیں وہ سر پر میرے دیوان کو ادب سے
[11]
11 امید، توقع، آسرا۔ امیر اللغات، 210:1
12 گنے، بانس یا کسی اور پودے کی وہ جگہ جہاں سے شاخ پھوٹتی ہے، (بیشتر) گرہ۔ "قلم جب بناویں تو نیچے کی جانب اور اوپر کے حصّے کی جانب قریب قریب آنکھ چھوڑ دینی چاہیے۔" [12]
شریفے کی پوست کا حلقے دار ابھار؛ انناس وغیرہ کے حلقے (ماخوذ : جامع اللغات، 61:1)
کریلے کے اندر کا وہ پوست جس میں بیج لپٹا ہوتا ہے۔ کریلے کو چھیل کاٹ کر اور اس کی آنکھوں میں سے بیج نکال کر نمک ملو اور کچھ دیر ہوا میں رکھ دو۔
لہسن کا جوا۔ بڑی آنکھ کا لہسن چھانٹ کر لانا۔
13 تخمینہ، اندازہ
لیا نہ دل مرا اک بوسے پر وہ یوں بولا
ہماری آنکھ میں اتنے کا تو یہ مال نہیں
[13]
14 اولاد، بیٹا بیٹی وغیرہ۔ "مجھے دونوں آنکھیں برابر ہیں جو بڑی کو دوں گی وہی چھوٹی کو دوں گی۔" [14][14]
15 گھٹنے کے دونوں طرف کا گھڑا۔ (امیر اللغات، 21:1)
16 چھایا، سایا، آسیب، خیالی یا وہمی صورت (عموماً پر کے ساتھ مستعمل)۔ (فرہنگ آصفیہ، 254:1)
17 حلقہ، جیسے زنجیر کی آنکھ، رزہ کی آنکھ وغیرہ (اکثر مضاف الیہ کے ساتھ مستعمل)۔
وہ تیغ تیز آبینہ پیکر پری نژاد
قبضے کی آنکھ، فون کی سورت پہ حق کا صاد
[15][15]
حرف کے دائرے کی صورت حال یا گول کشش۔
وہ دائروں کی آنکھ نہیں وہ نظر نہیں
فعلوں کا ہے یہ حال کہ اک حال پر نہیں
[16][16]
18 پتلی۔ "میری داہنی آنکھ میں پانی اتر آیا ہے۔" [17][17]
19 خوردبین وغیرہ کا شیشہ، عدسہ، لینس۔ "خوردبین کی آنکھ کے نیچے رکھ کر دیکھ سکتی ہے۔" [18][18]
20 سگنل۔ "مسافر کے لیے لازم ہے کہ سفر کے آداب سے واقف ہو، ایک خاص شریفانہ رفتار سے تجاوز نہ کرے، سرخ آنکھ نظر آئے تو رک جائے، سبز آنکھ نمودار ہو تو چل پڑے۔" [19]
21 مدار کا پودا، آک کا درخت۔ "جنگل میں ایک درخت ہوتا ہے جس کو آنکھ یا آک کہتے ہیں، اس کے پھول بالکل آنکھوں کی شکل کے ہوتے ہیں۔" [20]

مترادفات

ترمیم

متغیّرات

ترمیم
  • آنْک {آنْک (ن مغنونہ)}

مرکبات

ترمیم
  • آنْکھ کا اُجالا
  • آنْکھ کا تِل
  • آنْکھ کا جالا
  • آنْکھ کا حِجاب
  • آنْکھ کا حَلْقَہ
  • آنْکھ کا ڈورا
  • آنْکھ کا ڈھَلْکا
  • آنْکھ کا ڈھیلا
  • آنْکھ کا رَسِیلا
  • آنْکھ کا غُبار
  • آنْکھ کا کیچَڑ
  • آنْکھ کا لِحاظ
  • آنْکھ کا نَشَہ
  • آنْکھ کی سَفَیدی
  • آنْکھ کی سِیاہی
  • آنْکھ کی گَرْدِش
  • آنْکھ کی مُرَوَّت
  • آنْکھ تَلے
  • آنْکھ کا اَنْدھا
  • آنْکھ کا پَرْدَہ
  • آنْکھ کا تارا
  • آنْکھ کی پُتْلی
  • آنْکھ کی ٹھَنْڈَک
  • آنْکھ کی حَیا
  • آنْکھ مِچَولی
  • آنْکھ میں

روزمرہ جات

ترمیم
فقرہ معانی استعمال
آنکھ سے ٹپکنا نظر یا تیور سے کسی بات کا ظاہر ہونا۔
گھر کر دیے تھے کِتنے ہی بدذات نے غارت
آنکھوں سے سِتمگر کی ٹپَکتی تھی شرارت
[21]
آنکھ سے چنگاریاں اُڑنا غُصّے میں آنکھیں سُرخ ہو جانا۔
جری کی آنکھ سے چِنگاریاں جو اُڑتی تھیں
نِگاہیں شوم کی گوشوں کی سِمت مُڑتی تھیں
[22]
آنکھ سے خون ٹپکنا رونا
تہ جنجر مآل سخت جانی دیکھیے کیا ہو
ابھی سے خون اس قاتل کی آنکھوں سے ٹپکتا ہے
[23]
آنکھ سے دور ہونا جدا ہونا
جذب الفت پہ مجھے ناز ہے اے پردہ نشیں
دل سے نزدیک ہے تو گو مری آنکھوں سے ہے دور
[24]
آنکھ سے دیکھنا بچشم خود معائنہ کرنا
لطف کھویا اشک نے نظارہ تحریر کا
دیکھتا ہوں آنکھ سے لکھا ہوا تقدیر کا
[25]
آنکھ جمانا نگاہ کو کسی مرکز پر ٹھہرانا، غور سے دیکھنا؛ کسی چیز پر ہر پہلو سے نظر ڈالنا۔
حسن یوسف کو بہت آنکھ جما کر دیکھا
پوری تصویر تمھاری ہے شباہت کیسی
[26]
آنکھ جمنا آنکھ جمانا کا فعل لازم ہے۔
یہ برق وہ ہے جس کا اثر تابفلک ہے آنکھیں
نہیں جمتیں یہ چمک ہے یہ دمک ہے
[27]
آنکھ جھپکانا نگاہ کو خیرہ کر دینا؛ آنکھ یا آنکھوں کو چکاچوند کر دینا۔
فلک پر آنکھ کو بہرام کی بھی جھپکا دیں
دکھائیں تیغ کے جوہر جو چشم خشم آگیں
[28]
تھوڑی سی دیر کو سلا دینا یا سونا۔
رات بھر بے تابیوں کی کچھ تلافی چاہیے
صبح نے بیمار غم کی آنکھ جھپکائی تو کیا
[29]
آنکھ جھپکنا آنکھ جھپکانا کا فعل لازم ہے۔
ستاروں سے روشن وہ ہیرے جڑے ہیں
کہ خورشید کی آنکھ بھی جن سے جھپکی
[30]
آنکھ جھکانا نیچے کی طرف دیکھنا یا دیکھنے لگنا، نظر نیچی رکھنا۔
مخاطب ہیں وہ نرگس سے چمن میں
جھکائے آنکھ ہم شرما رہے ہیں
[31]
شرمانا، شرم سے آنکھ نیچی کرنا۔
ملا کے آنکھ نہیں رو آپ کہتے ہیں
جھکا کے آنکھ ذرا ایک بار ہاں تو کریں
[32]
آنکھ جھکنا آنکھ جھکانا کا فعل لازم ہے۔
تھی خطا ان کی مگر جب آ گئے وہ سامنے
جھک گئیں میری ہی آنکھیں رسم الفت دیکھیے
[33]
آنکھ چار کرنا نظر سے نظر ملانا، آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا، بے روک ٹوک سامنے آنا، ڈھٹائی سے دیکھنا۔
چوٹیں جو بڑھ کے چاروں نے ایک بار کیں
تھرائے ہاتھ ڈھال نے آنکھیں جو چار کیں
[34]
آنکھ چرانا آنکھیں چار نہ کرنا، بے مروتی کرنا، (شرمیلے پن یا ناز و ادا کی بنا پر یا احفائے راز وغیرہ کے لیے کسی کی طرف) کھل کر نہ دیکھنا، ٹال دینا۔ اسلام کی سچی تعلیم یہی تھی کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو جو تمہاری اعانت کے محتاج ہیں ان سے آنکھ نہ چراءو۔" [35]
آنکھ دبا کر دیکھنا کچھ کھلی کچھ بند آنکھ سے دیکھنا، ایک آنکھ بندکر کے دیکھنا، بھینگے پن کے انداز سے دیکھنا۔ ایک پستہ قامت بھینگا سیاہ فام آدمی بائیں آنکھ دبا کر داہنی سے مہدی کو بغور دیکھتا ہوا کمرے میں آیا۔" [36]
آنکھ پھیرنا بے مروتی کرنا۔
نرغے میں ہم ہیں سوتے ہو کیا رن میں چین سے
تم نے بھی آنکھ پھیر لی بیکس حسین سے
[36]
توجہ ہٹا لینا، کنارہ کرنا، گریز کرنا۔ وہ تو کبھی میری طرف سے آنکھ نہیں پھیرتا۔" [38]
آنکھ پھیرنا مرنا، دنیا سے گزرنا۔ اب کی تو مروا ہی ڈالا تھا اور آپ نے بھی آنکھیں پھیر لی تھیں۔" [37]
آنکھ توتے کی طرح بدلنا | پھرانا | پھیرنا یکایک بے مروتی اختیار کرنا، بے مروتی کرتے دیر نہ لگنا۔ کیا توتے کی طرح آنکھ بدلی ہے گویا کبھی آشنا ہی نہ تھے۔" [38]
آنکھ ٹھہرنا نگاہ جمنا، نظر کا ایک نقطے یا مرکز پر قائم رہنا۔
آنکھ ٹھہرے فروغ جام پہ
کیا ہر کرن آفتاب کی سی ہے
[39]
آنکھ جاتی رہنا بصارت زائل ہونا، کسی صدمے یا بیماری سے بینائی ختم ہو جانا۔ صفدر جنگ کی بائیں آنکھ میں ایک تیر لگا جس سے آنکھ جاتی رہی۔" [40]
آنکھ پھرانا سابقہ مروت اور ہمدردی ترک کرنا، بے وفائی برتنا۔
خوش ہو کے عبث مجھ کو ستا لیتا ہے
تنتی ہیں بھویں آنکھ پھرا لیتا ہے
[41]
آنکھ پھرنا بے مروتی کا برتاؤ کرنا، برگشتہ ہونا۔
آنکھ تیری جو پھری پھر گئی ساری دنیا
انتہا ہے کہ مخالف ہے مرا دل مجھ سے
[42] [44]
مر جانا، عالم اختصار ہونا۔
اس کی جب آنکھ پھری پھر گئیں اس کی آنکھیں
شیفتہ مرنے پہ تیار ہی کیا پھرتا تھا
[43]
آنکھ پھوٹنا چوٹ یا کسی صدمے سے اندھا ہو جانا، بینائی جاتی رہنا، دیدہ پٹم ہو جانا۔ خالہ جان آنکھیں پھوٹیں جو میں نے کل محسن کے لڑکے کو دیکھا بھی ہو۔" [46]
آنکھ بھر لانا آنکھ میں آنسو بھر لانا، خود کو آبدیدہ کرنا۔
سامنے آنکھوں کے خوں نور نظر کا جو بہا
آنکھ بھر لائے مگر اف بھی زباں سے نہ کہا
[44]
آنکھ پتھرانا آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جانا اور بے حس و حرکت ہو جانا، بے نور ہو جانا، کچھ نظر نہ آنا۔
پتھرا گئی تھی آنکھ مگر بند تو نہ تھی
اب یہ بھی انتظار کی صورت نہیں رہی
[45]
آنْکھ پرنم ہونا آنکھوں میں آنسو بھرے ہونا، آنسو بہنا۔
شبیر ہیں لخت جگر سرور عالم کیا
غم اسے جو آنکھ شہ میں ہے پرنم
[46]
آنکھ پر میل (تک) نہ ہونا تیوری پر بل نہ پڑنا، قطعاً ناگوار نہ گزرنا۔ میں نے خود (ان کو) لاکھوں ہار کے اٹھتے دیکھا تھا، آنکھ پر میل تک نہیں اچھی خاصی دولت پلک جھپکاتے آئی گئی ہو گی۔" [47]
آنکھ پڑنا (عشق و محبت، حسرت، رغبت، توجہ والتفات، حسد و عداوت، پسندیدگی وغیرہ سے) دیکھنا (اتفاقیہ یا بالارادہ)
چشم ساقی کی وہ مخمور نگاہی توبہ
آنکھ پڑتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانوں کی
[48]
آنکھ پسیجنا آنکھ کا آنسوءوں سے نمناک ہونا، آنکھوں میں آنسو آنا۔ (شرم یا رحم سے)۔
بے رحم سنگدل ستم اطوار بدشعار
آنکھیں پسیجتی نہیں تڑپے کوئی ہزار
[49]
آنکھ بہانا آنکھ بہنا کا تعدیہ ہے
رونے دھونے سے نہ کچھ بات بن آئی اپنی
ان کا کچھ بھی نہ گیا آنکھ بہائی اپنی
[50]
آنکھ بہنا مسلسل رونا، ہر دم آنسو جاری رہنا؛ آنکھوں سے پانی بہا کرنا۔
دیکھ بہتی آنکھ میری ہنس کے بولا کل وہ شوخ
بہ نہیں اب تک ہوا منہ کا ترے ناسور کیا
[51]
پتلی اور دیدے کا خراب اور بے نور ہو جانا۔ ایسا نزلہ گرا کہ دونوں آنکھیں بہ گئیں۔" [52]
آنکھ بھر آنا آنکھوں میں آنسو ابل آنا؛ آبدیدہ ہونا۔
سوشیلا نے پتی کی اپنے جب یہ آرزو پائی
تو دل ڈوبا وفور بیکسی سے آنکھ بھر آئی
[53]
آنکھ بھر کر دیکھنا نظر جما کر دیکھنا، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نظارہ کرنا۔
رخ جاناں کے آگے ہر تماشائی کو سکتا ہے
کوئی خورشید کو بھی آنکھ بھر کے دیکھ سکتا ہے
[54]
جی بھر کر دیدار کرنا، سیر ہو کر دیکھنا۔
کوئی دیکھے کیونکر انہیں آنکھ بھر کے
کڑے تیوروں نے بٹھایا ہے پہرا
[55]
آنکھ بدلنا پہلی سی نظر اگلی سی بات نہ رہنا۔
میزباں کی دیکھتی ہے آنکھ جب بدلی ہوئی
واں سے اٹھ کر دوسری جا ڈھونڈتی ہے میہماں
[56]
بے مروتی اور بے رخی اختیار کرنا
وہ اپنی دھن کا پکا ہے جو بدلی آنکھ تو بدلی بندھے
پانی کی یہ لہریں لکیریں سمجھو پتھر کی
[57]
آنکھ بند کرنا (نفرت، غیرت، بے مروتی، خوف و رعب، کمال تابش یا فرط قلق وغیرہ سے) آنکھیں میچ لینا۔
اللہ رہے چھوٹ روے شہ ارجمند کی
ذرے جو چمکے آنکھ ستاروں نے بند کی
[58]
کسی کام کی طرف سے غفلت برتنا، بے توجہی کرنا، نظرانداز کرنا۔ بغداد کے کارناموں سے آنکھیں بند کر لینا تو اپنی میراث کو ٹھکرانا ہے۔" [59]
مر جانا۔ جس دن سے میاں نے آنکھ بند کی برقعہ ان کے سر پر تھا۔" [60]
آنکھ اوپر نہ اٹھنا کمال مصروفیت کی وجہ سے کام کے علاوہ کسی اور طرف دھیان نہ دینا۔ ایسے لکھنے میں مصروف ہیں کہ آنکھ اوپرنہیں اٹھاتے۔" [61]
شرم وغیرہ کی وجہ سے نظر اونچی نہ کرنا۔
نادان رو رہی تھی برابر یہ حال تھا
اوپر نہ آنکھ اٹھاتی تو دم بھر یہ حال تھا
[62]
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل جو چیز آنکھ کے سامنے نہ ہو اگر وہ قریب ہو تب بھی دور ہے۔ منہ دیکھے کی دوستیاں رہ گئی ہیں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔" [63]
آنکھ اونچی کرنا نظر اٹھنا، نظر اٹھا کر دیکھنا، نظر سے نظر ملانا۔
کیا ہوا جرم ہے کیا کون سی میری تقصیر
آنکھیں اونچی کرو کیوں بیٹھے ہو شرمائے ہوئے
[64]
آنکھ اونچی ہونا آنکھ اونچی کرنا کا فعل لازم ہے۔
پست ہے زاہد کوتاہ نظر کی فطرت
آنکھ اونچی کبھی ہوتی ہے تو بدبینی کو
[65]
آنکھ آنا آنکھ یا آنکھوں میں سرخی کھٹک اور کبھی کبھی سوجن بھی ہونا، آنکھیں دکھنے آنا۔ (امیراللغات، 210:1)
روتے روتے سجائی ہیں آنکھیں
کوئی جانے کہ آئی ہیں آنکھیں
[66]
آنکھ اٹھا کر دیکھنا اوپر دیکھنا
دیکھا جو آنکھ اٹھا کے شہ دیں نے ایک
بار سایہ کیے تھے فرق پہ جبریل نامدار
[67]
سامنے دیکھنا۔ ؎ دیکھا جو آنکھ اٹھا کے تو میداں سے تا فرات
چھائی تھی مثل ابر سیہ فوج بد صفات [71]
حسرت سے دیکھنا، غمخواری کی توقع میں دیکھنا۔ ؎ حضرت نے آنکھ اٹھا کے جو دیکھا ادھر ادھر
کوئی نہ تھا فرس سے اتارے جو تھام کر [72]
دشمنی کی نگاہ سے دیکھنا۔ کس کی مجال ہے جو آپ کو آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے" [73]
سرسری طور پر دیکھنا؛ محض دیکھنا۔ ؎ جدھر دیکھا اٹھا کر آنکھ شام غم نظر آئی
نظر کے راستے محدود ہیں زلف پریشاں سے [74]
آنکھ اٹھا کر(بھی) نہ دیکھنا سرسری طور پر بھی نہ دیکھنا۔ ان میں پاک دامن حوریں ہوں گی جو غیر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گی۔" [75]
خاطر میں نہ لانا، کچھ حقیقت نہ سمجھنا۔ منوں چیز گھر میں آتی اور (وہ) آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی" [76]
رعب یا خوف سے کسی پر نظر نہ ڈالنا، بے باکی بے حجابی سے پیش نہ آنا۔ ابا جی کے سامنے میرے بھائی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ سکتے تھے۔" [77]
آنکھ اٹھانا اشارہ کرنا۔ ؎ تھی وغا میں جو وہ پابند امام عالی
جس طرف آنکھ اٹھائی ہوا میداں خالی [78]
آنکھ اٹھنا آنکھ اٹھانا کا فعل لازم ہے۔ ؎ فلک ہے دونوں طرف کا نگاہیباں جب تک
نہ اپنی آنکھ اٹھے گی نہ پردہ محمل کا [79]
آنکھ اچٹنا نیند اڑ جانا، جاگ پڑنا۔ ؎ شب کی جاگی ہوئی شبنم کو جو نیند آتی ہے
پتا ہلتا ہے تو آنکھ اس کی اچٹ جاتی ہے [80]
آنکھ ابلنا آنکھ کا آشوب کرنا، آنکھیں دکھنے لگنا۔ ؎ ابلی ہوئی آنکھوں پہ رکھا دست مطہر
آشوب اڑا مثل شمیم گل احمر [81]
فرط غیظ سے یا جوش اور ولولے میں آنکھ کے ڈھیلوں کا سرخ ہو کر ابھر آنا۔ ؎ جاندار تھا اصیل تھا با عقل و ہوش تھا
آنکھیں ابل پڑی تھیں یہ ایماں کا جوش تھا [82]
آنکھ اٹکانا عشق کرنا، دل میں عشق کی کھٹک پیدا کرنا۔ ؎ اخوت سے کیا لبریز اقصائے زمانہ کو
گیا زمزم سے دجلے تک اٹک سے آنکھ اٹکائی [83]
آنکھ اٹکنا آنکھ اٹکانا کا فعل لازم ہے۔ ؎ بلبلیں اس پہ گریں آ کے کلی جو چٹکی
گل سے آنکھ اٹکی تو کانٹے کی بھی برچھی کھٹکی [84]
آنکھ ڈبڈبانا آنکھوں میں آنسو بھر آنا۔ ؎ خدمت کی ڈبڈبائیں آنکھیں
تالا سا پڑا ہوا تھا منہ میں [85]
آنکھ سامنے نہ ہونا شرم و حیا یا ندامت سے نظر نہ ملانا، دیکھ نہ سکنا۔ ؎ آئینے کے بھی سامنے آنکھیں نہیں ہوتیں
قائل میں ہوا یار تری شرم و حیا کا [86]
آنکھ سے اترنا نظروں میں ذلیل ہونا۔ تمھاری تصویر دیکھ کے سارا مرقع آنکھوں سے اتر گیا۔" [87]
آنکھ سے آنکھ لڑنا نگاہیں چار ہونا، دیکھتے ہی عاشق ہونا۔ اس لڑکی کی بھی آنکھ اس برہمن مہرطلعت کی آنکھ سے لڑی۔" [88]
آنکھ سے آنکھ (ملانا — ملنا) ہم چشمی کا دعویٰ کرنا۔ ؎ رنگ آیا مے کشوں کے دل کی کلیاں کھل گئیں
اک ذرا ساقی کی آنکھوں سے جو آنکھیں مل گئیں [89]
آنکھ سے پردہ اٹھنا غفلت دور ہونا، بصیرت پیدا ہونا۔ ؎ آنکھوں سے اٹھے پردے تو بیداری میں دیکھا
جیسے کوئی کہتا ہے کہ حر میری طرف آ [90]
آنکھ دبنا شرمندہ احسان ہونا، جھیپنا؛ مغلوب ہونا۔ ؎ کیا رکیں گے یہ جری شام کے بے دردوں سے
آنکھ دبتی نہیں دو لاکھ جوانمردوں سے [91]
آنکھ دکھانا غصہ کرنا، گھورنا، رکھائی یا بے مروتی برتنا، منع کرنا، زیر کرنا، اشارہ کرنا۔ ؎ شوق سے آنکھیں دکھاءو مجھے کچھ رنج نہیں
شعبدہ یہ بھی تو اک گردش ایام کا ہے [92]
آنکھ (دوڑانا — دوڑنا) چار طرف دیکھنا، نگاہ کا سرعت سے ادھر ادھر پڑنا، لالچ کی نگاہ سے دیکھنا۔ بڑا ہی لالچی ہے ذرا سی چیز پر آنکھ دوڑتی ہے۔" [93]
آنکھ دیکھنا آنکھ کو دیکھ کر ارادے کا پتہ چلانا، فیض حاصل کرنا۔ ایسے لوگ موجود تھے جنھوں نے ہارون کی آنکھیں دیکھی تھیں اور اسلام کے سچے عاشق زار تھے۔" [94]
آنکھ دینا بینائی عطا کرنا، شعور بخشنا، گوشہ چشم سے اشارہ کرنا، شہ دینا۔ ؎ دیکھا نگہ غیظ سے ان فوجوں کے دل کو
شمشیر گل اندام نے دی آنکھ اجل کو [95]
آنکھ ڈالنا دیکھنا، شوق کی نظر سے دیکھنا، برے تیور سے دیکھنا، جستجو کرنا، بدنیتی سے دیکھنا۔ ؎ عشق کی غیرت سے یہ کیوں کر گوارا ہو سکے
آنکھ ڈالیں غیر تم پر اور میں دیکھا کروں [96]
آنکھ بچا (کر — کے) اس طرح کہ کوئی دیکھ نہ لے، چوری چھپے۔ پُلس کی آنکھ بچا کے اینڈتے پھرتے ہیں۔" [97]
بے مروتی کے ساتھ۔ ؎ جو تن سے اڑا دیوے ہے سر آنکھ بچا کر
ایسے سے کوئی جائے کدھر آنکھ بچا کر [98]
آنکھ بچانا اس طرح کوئی کام کرنا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ میں ایسی دولت پر لعنت بھیجتا ہوں اور آنکھ کس کی بچاءوں سب سیاہ سفید تو میرے ہاتھ میں ہے۔" [99]
آنکھ بچنا نظر چوکنا، ذرا سی دیر کو غافل ہونا۔ صاحبزادے کب کسی کے روکے رکتے ہیں آنکھ بچی اور چل دیے۔" [100]
آنکھ بچھانا تعظیم و تکریم کرنا، شوق اور احترام سے خوش آمدید کہنا، خاطر مدارت کرنا (بیشتر جمع مستعمل) سب رشتے تڑا کر اپنے پلے باندھا دن رات آنکھیں بچھائیں۔" [101]

فقرات

ترمیم

آنکھ پھڑکے بائیں بیر ملے یا سائیں آنکھ پھڑکے دہنی ماں ملے یا بہنی

بائیں آنکھ پھڑکے تو شوہر یا بھائی سے ملاقات ہوتی ہے اور دائیں آنکھ پھڑکنے پر ماں یا بہن سے؛ عورت کی بائیں اور مرد کی دائیں آنکھ کا پھڑکنا نیک شگون ہے۔ (ماخوذ : امیراللغات، 219:1)

آنکھ بچی مال (دوستوں کا | یاروں کا)

ذرا غفلت ہوئی اور لوگوں نے چیز اڑا لی، ذرا سی چوک میں مال تلف ہو گیا۔

چور اور گرہ کٹ بھی شکاری ہے آنکھ بچی اور مال یاروں کا یہی حال جعل ساز، دغاباز، عیار، مکار اور چار سو بیس قسم کے لوگوں کا ہے۔" [102]

حوالہ جات

ترمیم
  1.  (1921ء) "ضیائے سخن"۔ ص: 64۔
  2.  (1878ء) "گلزار داغ"۔ ص: 184۔
  3.  (1895ء) "فرہنگ آصفیہ"۔ ص: 253:1۔
  4.  (1963ء) "مراثی نسیم"۔ ص: 11:3۔
  5.  (1956ء) "اختر (سجاد علی خاں)، مسدس"۔ ص: 8۔
  6.  (1925ء) "جاوید (سید محمد کاظم)، مرثیہ"۔ ص: 11۔
  7.  (1965ء) "منظور رائے پوری، مرثیہ"۔ ص: 7۔
  8.  (1944ء) "افسانچے، کیفی"۔ ص: 136۔
  9.  (مکتوبات شاد عظیم آبادی) "مکتوبات شاد عظیم آبادی"۔ ص: 191۔
  10.  (1936ء) "غزل کوکب، ماہنامہ، مسافر، مراد آباد، جنوری"۔ ص: 27۔
  11.  (1881ء) "مسیو، امیراللغات"۔ ص: 210:1۔
  12.  (1903ء) "باغبان"۔ ص: 19۔
  13.  (1824ء) "مصحفی، دیوان (ق)"۔ ص: 178۔
  14.  () ""۔ ص: ۔
  15.  () ""۔ ص: ۔
  16.  () ""۔ ص: ۔
  17.  () ""۔ ص: ۔
  18.  () ""۔ ص: ۔
  19. وزیر آغا (1975ء)، "ماہنامہ الشجاع"۔ ص: 39۔
  20.  (1955ء) حسن نظامی۔ "پھول"۔ ص: 24۔
  21.  (1970ء) "مرثیہ فیض بھرتپوری"۔ ص: 9۔
  22.  (1919ء) "مرثیہ بزم اکبر آبادی"۔ ص: 13۔
  23. امیر مینائی (1911ء)، امیر اللغات۔ "شعر از تسلیم"۔ ص: 228:1۔
  24.  (1937ء) "قصائد نسیم"۔ ص: 117۔
  25.  (1932ء) "نقوش مانی"۔ ص: 17۔
  26.  (1888ء) "صنم خانہ عشق"۔ ص: 268۔
  27.  (1929ء) "مرثیہ رفیع (مرزا طاہر)"۔ ص: 12۔
  28.  (1903ء) "نظم نگاریں، جلال"۔ ص: 6۔
  29.  (1942ء) "اسرار"۔ ص: 72۔
  30.  (1905ء) "یادگار داغ"۔ ص: 200۔
  31.  (1903ء) "نظم نگاریں، جلال"۔ ص: 99۔
  32.  (1932ء) "نقوش مانی"۔ ص: 104۔
  33.  (1920ء) "روح ادب"۔ ص: 86۔
  34.  (1912ء) "شمیم، مرثیہ"۔ ص: 17۔
  35.  (1936ء) "راشدالخیری، زیور اسلام"۔ ص: 12۔
  36.  (1912ء) "شمیم، مرثیہ"۔ ص: 18۔
  37.  (1903ء) "سرشار، خدائی فوجدار"۔ ص: 93:1۔
  38.  (1924ء) "نوراللغات"۔ ص: 157:1۔
  39.  (1934ء) "بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر"۔ ص: 231۔
  40.  (1956ء) "بیگمات اودھ"۔ ص: 26۔
  41.  (1927ء) "شادعظیم آبادی، رباعیات"۔ ص: 77۔
  42.  () ""۔ ص: ۔
  43.  (1915ء) "جان سخن"۔ ص: 193۔
  44.  (1910ء) "لڑکیوں کی انشا، راشدالخیری"۔ ص: 51۔
  45.  (1912ء) "شمیم، مرثیہ"۔ ص: 19۔
  46.  (1941ء) "فانی، کلیات"۔ ص: 210۔
  47.  (1972ء) "مرثیہ یاور اعظمی"۔ ص: 2۔
  48.  (1924ء) "خونی راز، مرزا رسوا"۔ ص: 82۔
  49.  (1941ء) "فانی، کلیات"۔ ص: 191۔
  50.  (1938ء) "مرثیہ رائق"۔ ص: 9۔
  51.  (1921ء) "واسوخت شبیر خان"۔ ص: 13۔
  52.  (1810ء) "میر، کلیات"۔ ص: 369۔
  53. امیر مینائی (1891ء)، امیراللغات۔ ص: 216:1۔
  54.  (1929ء) "مطلع انوار"۔ ص: 156۔
  55.  (1854ء) "دیوان اسیر، گلستان سخن"۔ ص: 445۔
  56.  (1938ء) "سریلی بانسری"۔ ص: 11۔
  57.  (1914ء) "حالی، کلیات نظم حالی"۔ ص: 118:2۔
  58.  (1938ء) "سریلی بانسری، آرزو"۔ ص: 84۔
  59.  (1934ء) "مرثیہ رفیع (مرزا طاہر)"۔ ص: 5۔
  60.  (1946ء) "تعلیمی خطبات (ڈاکٹر ذاکر حسین)"۔ ص: 206۔
  61.  (1932ء) "اخوان الشیاطین"۔ ص: 310۔
  62. امیر مینائی (1891ء)، امیراللغات۔ ص: 212:1۔
  63.  (1972ء) "عزم جونپوری، ذکر وفا"۔ ص: 15۔
  64.  (1943ء) "دلی کی چند عجیب ہستیاں"۔ ص: 147۔
  65.  (1861ء) "کلیات اختر (واجد علی شاہ)"۔ ص: 836۔
  66. امیر مینائی (1903ء)، امیراللغات۔ "شعر از قلق"۔ ص: 211:1۔
  67. امیر مینائی (1880ء)، امیراللغات۔ "شعر از قلق"۔ ص: 211:1۔

1 ^ ( 1921ء، ضیائے سخن، 64 )

2 ^ ( 1878ء، گلزار داغ، 184 )

3 ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 253:1 )

4 ^ ( 1963ء، مراثی نسیم، 11:3 )

5 ^ ( 1956ء، اختر (سجاد علی خاں)، مسدس، 8 )

6 ^ ( 1925ء، جاوید (سید محمد کاظم)، مرثیہ، 11 )

7 ^ ( 1965ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، 7 )

8 ^ ( 1944ء، افسانچے، کیفی، 136 )

9 ^ ( 1924ء، مکتوبات شاد عظیم آبادی، 191 )

10 ^ ( 1936ء، غزل کوکب، ماہنامہ، مسافر، مراد آباد، جنوری، 27 )

11 ^ ( 1881ء، مسیو، امیراللغات، 210:1 )

12 ^ ( 1903ء، باغبان، 19 )

13 ^ ( 1824ء، مصحفی، دیوان (ق)، 178 )

14 ^ ( 1895ء، فرہنگ آصفیہ، 153:1 )

15 ^ ( 1962ء، 62ء کے چند جدید مرثیے، 78 )

16 ^ ( 1912ء، شمیم، ریاض شمیم، 131:7 )

17 ^ ( 1913ء، مکاتیب حالی، 77 )

18 ^ ( 1969ء، نفسیات اور ہماری زندگی، 17 )

19 ^ ( 1975ء، وزیر آغا، ماہنامہ، الشجاع، سالنامہ، کراچی، 39 )

20 ^ ( 1955ء، حسن نظامی، پھول، 24 )

21 ^ ( 1970ء، مرثیہ فیض بھرتپوری، 9 )

22 ^ ( 1919ء، مرثیہ بزم اکبر آبادی، 13 )

23 ^ ( 1911ء، تسلیم (امیر اللغات، 228:1) )

24 ^ ( 1937ء، قصائد نسیم، 117 )

25 ^ ( 1932ء، نقوش مانی، 17 )

26 ^ ( 1888ء، صنم خانہ عشق، 268 )

27 ^ ( 1929ء، مرثیہ رفیع (مرزا طاہر)، 12 )

28 ^ ( 1903ء، نظم نگاریں، جلال، 6 )

29 ^ ( 1942ء، اسرار، 72 )

30 ^ ( 1905ء، یادگار داغ، 200 )

31 ^ ( 1903ء، نظم نگاریں، جلال، 99 )

32 ^ ( 1932ء، نقوش مانی، 104 )

33 ^ ( 1920ء، روح ادب، 86 )

34 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 17 )

35 ^ ( 1936ء، راشدالخیری، زیور اسلام، 12 )

36 ^ ( 1926ء، شرر دلچسپ، 19:1 )

37 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 18 )

38 ^ ( 1910ء، آپ بیتی، 105 )

39 ^ ( 1903ء، سرشار، خدائی فوجدار، 93:1 )

40 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 157:1 )

41 ^ ( 1934ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، 231 )

42 ^ ( 1956ء، بیگمات اودھ، 26 )

43 ^ ( 1927ء، شادعظیم آبادی، رباعیات، 77 )

45 ^ ( 1915ء، جان سخن، 193 )

46 ^ ( 1869ء، شیفتہ، کلیات، 122 )

47 ^ ( 1910ء، لڑکیوں کی انشا، راشدالخیری، 51 )

48 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 19 )

49 ^ ( 1941ء، فانی، کلیات، 210 )

50 ^ ( 1972ء، مرثیہ یاور اعظمی، 2 )

51 ^ ( 1924ء، خونی راز، مرزا رسوا، 82 )

52 ^ ( 1941ء، فانی، کلیات، 191 )

53 ^ ( 1938ء، مرثیہ رائق، 9 )

54 ^ ( 1921ء، واسوخت شبیر خان، 13 )

55 ^ ( 1810ء، میر، کلیات، 369 )

56 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 216:1 )

57 ^ ( 1929ء، مطلع انوار، 156 )

58 ^ ( 1854ء، دیوان اسیر، گلستان سخن، 445 )

59 ^ ( 1938ء، سریلی بانسری، 11 )

60 ^ ( 1914ء، حالی، کلیات نظم حالی، 118:2 )

61 ^ ( 1938ء، سریلی بانسری، آرزو، 84 )

62 ^ ( 1934ء، مرثیہ رفیع (مرزا طاہر)، 5 )

63 ^ ( 1946ء، تعلیمی خطبات، (ڈاکٹر ذاکر حسین)، 206 )

64 ^ ( 1932ء، اخوان الشیاطین، 310 )

65 ^ ( 1891ء، امیراللغات، 212:1 )

66 ^ ( 1972ء، عزم جونپوری، ذکر وفا، 15 )

67 ^ ( 1943ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، 147 )

68 ^ ( 1861ء، کلیات اختر (واجد علی شاہ)، 836 )

69 ^ ( 1903ء، غزلیات جوہر (مجاہد حسین)، 97 )

70 ^ ( 1880ء، قلق (امیراللغات، 211:1) )

71 ^ ( 1939ء، جلیل (فرزند حسن)، مرثیہ، 21 )

72 ^ ( 1934ء، مرثیہ فہیم (باقر علی خاں)، 4 )

73 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 19 )

74 ^ ( 1917ء، یزید نامہ، حسن نظامی، 61 )

75 ^ ( 1935ء، عیاں، دیواں، 161 )

76 ^ ( 1903ء، ترجمہ قرآن، نذیر، 892 )

77 ^ ( 1908ء، صبح زندگی، 6 )

78 ^ ( 1936ء، پریم چند، واردات، 15 )

79 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 11 )

80 ^ ( 1927ء، آیات وجدانی، 93 )

81 ^ ( 1965ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، 5 )

82 ^ ( 1974ء، رواں واسطی، مرثیہ، 11 )

83 ^ ( 1927ث، شاد عظیم آبادی، مراثی، 64:2 )

84 ^ ( 1937ء، قصیدہ محشر لکھنوی، 6 )

85 ^ ( 1965ء، منظور رائے پوری، مرثیہ، 3 )

86 ^ ( 1936ء، جگ بیتی، 57 )

87 ^ ( 1886ء، دیوان سخن، 55 )

88 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 161:1 )

89 ^ ( 1801ء، طوطا کہانی، 49 )

90 ^ ( 1949ء، سلام قیصر، 23 )

91 ^ ( 1916ء، مرثیہ فہیم(باقر علی خاں)، 7 )

92 ^ ( 1969ء، مرثیہ یاور اعظمی، 11 )

93 ^ ( 1921ء، اکبر، کلیات، 88:1 )

94 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 159:1 )

95 ^ ( 1918ء، امین کا دم واپسیں، 7 )

96 ^ ( 1912ء، شمیم، مرثیہ، 6 )

97 ^ ( 1911ء، تسلیم، نظم ارجمند، 165 )

98 ^ ( 1924ء، اختری بیگم، 66 )

99 ^ ( 1926ء، معروف، دیوان، 54 )

100 ^ ( 1935ء، دودھ کی قیمت، 148 )

101 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 152:1 )

102 ^ ( 1912ء، شہید مغرب، 42 )

103 ^ ( 1958ء، عمر رفتہ، 225 )