آن بان
آن بان {آن + بان} (فارسی)
فارسی زبان میں اسم آن کے ساتھ فارسی سے ہی تابع مہمل بان بطور لاحقہ لگنے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے 1784ء میں "سحرالبیان" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مؤنث - واحد)
معانی
ترمیم1. شان و شوکت، سج دھج۔
؎ دنیا کی پڑ رہی ہیں نگاہیں ریاض پر
کس وضع کا جوان ہے کیا آن بان ہے [1]
2. عزت آبرو، خود داری، پاس ناموس۔
"اس میں ایک آن بان اور خود داری ہوتی ہے۔" [2]
3. تمکنت، اکٹر، دماغ داری۔
؎ پھر حیا ہے تو نہ آنا او آن بان والے
جھوٹا ہی وعدہ کرلے سچی زبان والے [3]
4. بانکپن، وضعداری۔
"گو وہ زمانہ عسرت کا تھا مگر آن بان پابندی وضع .... ان کا حصّہ تھی۔" [4]
5. ہٹ، آڑ، ضد۔
؎ اے آہ اب تو اپنی کہیں آن بان چھوڑ
جاویں کدھر ملائکہ ہفت آسمان چھوڑ [5]
انگریزی ترجمہ
ترمیمway, fashion; habit, peculiarity; grace, elegance, beauty; pride, conceit; spirit, proper pride, dignity
مترادفات
ترمیمآب و تاب نُمُود و نُمائش چَمَک دَمَک
== رومن =ان
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( ریاض خیر آبادی، نشر ریاض، 1936، 115 ) 2 ^ ( چند ہم عصر، 1935، 105 ) 3 ^ ( آرزو، ساز حیات، 1951، 40 ) 4 ^ ( ریاض خیر آبادی، نثر ریاض، 1936، 49 ) 5 ^ ( کلیات انشاء، 1818، 64 )