آوازہ
آوازَہ {آ + وا + زَہ} (فارسی)
آواز آوازَہ
فارسی زبان سے ماخوذ ہے اور اردو میں اصلی حالت اور اصلی معنی میں ہی مستعمل ہے سب سے پہلے 1564ء کو"دیوان حسن شوقٍ" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
واحد غیر ندائی: آوازے {آ + وا + زے}
جمع: آوازے {آ + وا + زے}
جمع غیر ندائی: آوازوں {آ + وا + زوں (واؤ مجہول)}
==معانی==شہرت، چرچا، دھوم، نام آوری۔
؎ جب سے سنا ہے آپ کا آوازہ جمال
جس دل کو دیکھیے وہ مہیایے عشق ہے [1]
2. طعن و تشنیع، پھبتی (عموماً جمع کے ساتھ)۔
"حقارت کے آوازے ہوں گے "شیم شیم" کے نعرے ہوں گے۔" [2]
3. آواز، شور و غل، بانگ وغیرہ۔
؎ بن کر میں رضا کار مہیانے فنا ہوں
آوازہ حق بانگ درا میرے لیے ہے [3]
مترادفات
ترمیمڈَنْکا نَامْوَرِی شُہْرَہ طَعْنَہ غُل
روزمرہ جات
ترمیمآوازہ بلند کرنا
شہرت دینا؛ اعلان کرنا۔
تبدیل منزل اور تغیر مکان کا بہانہ بنا کے کوچ کا آوازہ بلند کیا۔" [4]
آوازہ پھینکنا
پھبتی کسنا، طنز سے درپردہ کچھ کہنا، چوٹ کرنا، بولی ٹھولی مارنا۔
؎ اس کو عیار کہو تم یہ یقیں ہے کس کو غیر کے نام سے آوازہ یہ مجھ پر پھینکا [5]
رومن
ترمیمAawazah
تراجم
ترمیمانگریزی: Report; rumor; fame; reputation
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( 1923ء، کلیات حسرت، 181 ) 2 ^ ( 1915ء، سی پارہ دل، 194:1 ) 3 ^ ( 1917ء، کلیات حسرت، 114 ) 4 ^ ( 1897ء، تاریخ ہندوستان، 6:8 ) 5 ^ ( 1905ء، یادگار داغ، 147 )