آور
آوَر {آ + وَر} (فارسی)
آوردن آوَر
فارسی زبان کے مصدر آوردن سے مشتق ہے اور اردو میں تراکیب میں بطور لاحقہ فاعلی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1895ء میں "چمن تاریخ" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت نسبتی
جمع غیر ندائی: آوَروں {آ + وَروں (واؤ مجہول)}
معانی
ترمیممترادف : صاحب، والا، جیسے : زورآور، نام آور، زبان آور۔
"کسی سوتے ہوئے جانور پر شیر حملہ آور ہوتا ہے۔"[1]
2. لانے والا (اکثر ہندی الفاظ کے ساتھ بھی مستعمل، جیسے : دست آور)۔
"جن کے دل میں تخم دین کے لیے زیادہ قابل اور بارآور زمین ملے۔" [2]
انگریزی ترجمہ
ترمیمBringing, bearing; possessing, endowed with, (used and last member of compounds)
مترادفات
ترمیموالا صاحِب
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( 1923ء، ماہنامہ نگار فروری، 136 ) 2 ^ ( 1897ء، دعوت اسلام، 22 )