آیا
آیا{3} {آ + یا} (سنسکرت)
آنا آیا سنسکرت زبان سے ماخوذ اردو مصدر آنا سے صیغۂ ماضی مطلق مشتق ہے۔ اردو میں بطور اسم صفت اور گاہے بطور متعلق فعل بھی مستعمل ہے۔ سب سے پہلے 1435ء میں "کدم راؤ پدم راؤ" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی (مذکر - واحد) جنسِ مخالف: آئی {آ + ای} واحد غیر ندائی: آئے {آ + اے} جمع: آئے {آ + اے}
معانی
ترمیمپہنچا ہوا، آیا ہوا۔ "اس وقت کو آیا سمجھو اور اس کے جواب کے لیے تیار ہو جاؤ۔" [1]
2. (کسی کے پکارنے کے جواب میں) حاضر ہوا۔ (نوراللغات، 214:1)
متعلق فعل بطور معاون فعل مستعمل، حسب موقع آگیا وغیرہ یا استمرار فعل کے معنی میں۔
؎ عمر بھر نخل وفا میں برگ و بار آیا کیا
اچھی صورت پر دل بے اختیار آیا کیا [2]
روزمرہ جات
ترمیمآئے حواس (جانا | غائب ہونا)
بچوں کی بیماری میں میرے آئے حواس جاتے رہتے ہیں۔" [3]
آئے (ہوے) ہوش جانا
؎ وہ آج آپ کو ایسا ہیں کچھ بنائے ہوئے کہ شکل دیکھ کے جاتے ہیں ہوش آئے ہوئے [4] آئے اوسان خطا ہونا بے حد گھبرا جانا، ہاتھ پاءوں پھول جانا۔ بڑی بی کے خود آئے اوسان خطا ہوتے جا رہے تھے، گھور گھور کے دیکھتی تھیں اور کہتی تھیں، سرکار اس سڑک کے دونوں طرف جنگل ہی جنگل ہے۔" [5]
فقرات
ترمیمآیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
بے پروائی اور غفلت کے باعث نقصان ہو گا۔ (ماخوذ : جامع اللغات، 4:1؛ قصص الامثال، 26)
آیا گیا ہونا
بھول جانا، فراموش ہو جانا۔
وہ تذکرہ بھی آیا گیا ہو گیا۔" [6]
آیا آدمی آیا رزق گیا آدمی گیا رزق
مہمان یا مولود اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے، جو کچھ مہمان یا پیدا شدہ بچے کی قسمت کا ہے وہ میزبان کو قدرت کی جانب سے مل جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے، آیا آدمی آیا رزق گیا آدمی گیا رزق" [7]
آیا پیسہ آئی مت گیا پیسہ گئی مت
دولت انسان کو نئی نئی باتیں سمجھا دیتی ہے اور مفلس اس کی مت مار دیتی ہے۔
کبھی ہم بھی ..... تمیز والے سمجھے جاتے تھے ..... آج پھوہڑ ہم، بدتمیز ہم ..... اس کی وجہ جانتی ہو، آیا پیسہ آئی مت، گیا پیسہ گئی مت" [8]
آیا تو نوش ورنہ خاموش
کچھ مل گیا تو کھا لیا ورنہ فاقے ہی سے پڑے رہے۔
سعداللہ شاہ نے اپنا گھر موروثی ..... بیچ کر اور جو کچھ پاس جمع تھا فرش مسجد کی شکست و ریخت میں صرف کر دیا ے، معاملہ برات عاشقاں بر شاخ آہو" کر رکھا ہے، آیا تو نوش ورنہ خاموش۔" [9]
آیا رمضان بھاگا شیطان
نیکی کے سامنے بدی نہیں ٹھہرتی، نیک آدمی کے آنے پر بد آدمی بھاگ جاتا ہے۔ (نجم الامثال، 36)
آئے کی (شادی | خوشی) نہ گئے کا غم
نہ کسی چیز کے حاصل ہونے کی خوشی ہے نہ چلے جانے کا رنج ہے۔
؎ ہے وصل میں راحت نہ جدائی میں الم ہے آئے کی نہ شادی نہ گئے کا مجھے غم ہے [10]
حوالہ جات
ترمیم1 ^ ( 1917ء، شام زندگی، 27 ) 2 ^ ( 1942ء، کلام فصیح دہلوی، 4 ) 3 ^ ( 1955ء، مہذب اللغات، 147:2 ) 4 ^ ( 1903ء، زکی، دیوان، 170 ) 5 ^ ( 1939ء، شمع، 445 ) 6 ^ ( 1924ء، نوراللغات، 215:1 ) 7 ^ ( 1970ء، غبار کارواں، 154 ) 8 ^ ( 1913ء، مضامین محفوظ علی، 160 ) 9 ^ ( 1864ء، تحقیقات چشتی، 1055 ) 10 ^ ( 1888ء، گوہر انتخاب، 338 )