- اس کہاوت کے لفظی معنی تو یہ ہیں، "ایک نہ ہوا دو ہوئے۔" اور یہ اس وقت بولی جاتی ہے جب ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مصیبت بھی سر پر آ پڑے۔[1]
اس کہاوت کی کہانی یوں ہے کہ ایک شخص منتر پڑھ کر مردوں کو زندہ کرنے اور دوسرا منتر پڑھ کر انہیں دوبارہ مارنے کا جادو جانتا تھا۔ وہ مردوں کو زندہ کر کے ان سے باتیں کرتا اور پھر انہیں دوبارہ جادو کے زور سے قبر میں داخل کر دیتا۔ وہ شخص جب مرنے لگا تھ اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ جادو سکھا دیا۔ اس کے مرنے کے کچھ عرصے بعد شاگرد نے ایک قبر پر جا کر یہ منتر پڑھا اور مردے سے باتیں کیں، لیکن مردے کو دوبارہ قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا۔ شاگرد بہت گھبرایا اور جب گھبرا کر بھاگنے لگا تو وہ مردہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا۔ اب وہ جہاں بھی جاتا مردہ اس کے پیچھے آتا۔ بہت کوشش پر بھی جب اسے منتر یاد نہ آیا تو اسے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ استاد کی قبر پر پہنچا اور مردے کو زندہ کرنے کا منتر پڑھا اور استاد کے قبر سے نکلنے پر اس سے دوسرا منتر پوچھنے لگا، لیکن استاد صاحب ایسی دنیا میں پہنچ چکے تھے جہاں انہیں کوئی پچھلی بات یاد نہ تھی اور اب استاد کا مردہ بھی پہلے مردے کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ نتیجہ یہ کہ شاگرد وہاں سے یہ کہہ کر بھاگا کہ، "یک نہ شد دو شد۔"
[1]