غریبی
غَرِیبی {غَرِی+بی} (عربی)
غ ر ب، غَرِیب، غَرِیبی
عربی زبان سے مشتق صفت غریب کے آخر پر ی لاحقہ کیفیت لگانے سے بنا اور اردو میں اپنے اصل معنوں اور ماخوذ ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے 1625ء کو "سیف الملوک و بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت (مؤنث - واحد)
معانی
ترمیم1. مفلسی، ناداری، محتاجی۔
"عوام کی غربت، مفلسی، محتاجی، لاچارگی اور غریبی کے دکھ جھلکتے ہیں۔"، [1]
2. مسافرت، وطن سے دوری، پردیس۔
؎ سر پر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالئے
وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے، [2]
3. عاجزی، انکسار۔
"بہت ملایمت اور غریبی سے بولا، اے ماہی گیر ایسا کام نہ کیجیو۔"، [3]
4. سادگی، کھراپن، معصومیت۔
"حرم کی غریبی پر دائی کا دل موم سا پگھل گیا اور رحم آیا۔"، [4]
انگریزی ترجمہ
ترمیمa state of being a foreigner, foriegnness; humility, wretchedness
مترادفات
ترمیممَسْکَنَت، اِفْلاس، مُحْتاجی، مِسْکِینی