ٹھکائی
ٹھُکائی {ٹھُکا + ای} (سنسکرت)
توکش، ٹھوکْنا، ٹھُکائی
سنسکرت سے ماخوذ اردو مصدر ٹھوکنا کی و حذف کر کے ائی بطور لاحقہ کیفیت لگنے سے ٹھکائی بنا اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ 1947ء میں فرحت کے مضامین میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت (مؤنث - واحد)
جمع: ٹھُکائِیاں {ٹھُکا + اِیاں}
جمع غیر ندائی: ٹھُکائِیوں {ٹھُکا + اِیوں (واؤ مجہول)}
معانی
ترمیم1. مارپیٹ، زد و کوب۔
"اگر تم نے شاکیہ منی کے چیلوں کا یہ گیروا پہناوا نہ پہن رکھا ہوتا تو میں تمہاری ٹھکائی کر دیتا۔"، [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ( 1956ء، آگ کا دریا، 27 )