عشق
عِشْق {عِشْق} (عربی)
ع ش ق، عِشْق
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے 1564ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم کیفیت (مذکر)
جمع غیر ندائی: عِشْقوں {عِش + قوں (و مجہول)}
معانی
ترمیم1. شدید جذبۂ محبت، گہری چاہت، محبت، پریم، پیار۔
؎ ناز برداری کوئی آساں نہیں
میں نے ناحق عشق کا دعویٰ کیا، [1]
2. { تصوف } حُبِ مفرط اور کشش معشوق اور حب معشوق اور مرتبۂ وحدت کو کہتے ہیں اس کے پانچ درجے ہیں : درجہ اول فقدانِ دل یعنی دل کا گم کرنا، درجۂ دوم تاسف کہ جس میں عاشق بیدل بغیر معشوق کے ہر وقت اپنی زندگی سے متاسف ہوتا ہے، درجۂ سوم وجد اس کی وجہ سے عاشق کو اپنی جگہ اور کسی وقت آرام اور قرار نصیب ہی نہیں ہوتا، درجہ چہارم بے صبری، درجہ پنجم صیانت، عاشق اس درجے میں پہنچ کر دیوانہ ہو جاتا ہے، بجز معشوق کے اور کسی کی یاد نہیں ہوتی، عشقِ حقیقی۔
(مصباح التعرف، 176)
3. { طب } ایک طرح کا جنون و سودا جو صورت آدمی کو دیکھنے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)
4. شوق، آرزو۔
؎ ہوا جو عشقِ ثنائے ابوتراب مجھے
خدا نے کر دیا ذرے سے آفتاب مجھے، [2]
5. عادت، لت، دھت، ٹھرک۔
(فرہنگ آصفیہ)
6. سلام، آدابِ عرض۔
؎ یاں غش ہیں شوقِ طوف میں یارانِ کعبہ کو
اے نامہ بر تو کہیو یہ پیغام اور عشق، [3]
انگریزی ترجمہ
ترمیمLove, excessive love, passion (for)
مترادفات
ترمیممَحَبَّت، حُب، اُلْفَت، پَریم، دھُن، پِیار، جُنُون، رُومان، سُہاگ، شَغَف، خَبْط، پِرِیت، چاہَت، سَودا، شیفْتَگی، تَعَشُّق،
مرکبات
ترمیمعِشْقِ اِلٰہی، عِشْق باز، عِشْقِ حَقِیقی، عِشْقِ رَسُولۖ، عِشْقِ مَجازی، عِشْقِ اَزَلی، عِشْقَ اللہ، عِشْق پَرْوَر، عِشْق پیچاں، عِشْقِ صَادِق
حوالہ جات
ترمیممزید دیکھیں
ترمیم- عشق ازلی
- عشق اللہ
- عشق پرور
- عشق پیچاں
- عشق صادق
- عشقیہ شاعر
- راہ عشق
- مبتلائے عشق
- گرمیء عشق
- سوز عشق
- متعشق
فارسی
ترمیماسم
ترمیمعشق