ٹُوٹْنا {ٹُوٹ + نا} (سنسکرت)

تروٹ، ٹُوٹ، ٹُوٹْنا

سنسکرت کے اصل لفظتروٹ سے ماخوذ اردو زبان میں ٹوٹ مستعمل ہے اس کے ساتھ اردو لاحقۂ مصدر نا لگنے سے ٹوٹنا بنا۔ اردو میں بطور مصدر مستعمل ہے۔ 1496ء میں "شاہ میراں جی" کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم

معانی ترمیم

1. شکستہ ہونا، ٹکڑے ہونا، ریزہ ریزہ ہونا۔

؎ بہت جام مئے گلرنگ تیرے ہاتھ سے ٹوٹے

بہت لالہ رخوں کے لعل لب تو نے کیے جھوٹے، [1]

2. کسی پر ہجوم کرنا، تنہا یا مل کر حملہ کرنا، دھاوا بولنا۔

؎ تحمل تا کجا ٹوٹا ہے اک لشکر مصیبت کا

مدد یا رب قدم اب صبر کی منزل سے اٹھتا ہے، [2]

3. (بے اختیار) گرنا، جھکنا، [[زور شور سے]] مائل ہونا۔

"ایک خلقت ٹوٹی اور اپنے شہزادے کو شہر کے ناکے تک پہنچا آئی۔" [3]

جھپٹنا۔

"ایک پنجہ ہوا سے باز شکاری کی طرح ٹوٹا۔" [4]

4. علیحدہ ہونا، جدا ہونا، اکھڑنا۔

"دہلی کا ٹوٹا ہوا مجمع بھی اسی دربار میں فروغ حاصل کر رہا تھا۔" [5]

گواہ کا فریق مخالف سے ساز باز کرنا، جرح میں بگڑ جانا، خلاف ہو جانا، گواہ کا بیان سے پھر جانا۔

"مرزا کے کونسلی نے بہت زور دیا، جرح کے سوالات بہت ہی سخت کیے مگر ایک گواہ نہ ٹوٹا۔" [6]

رفاقت سے علیحدگی اختیار کرنا، ہم خیالی ترک کرنا۔

"شبلی گو آج کل ہم سے ٹوٹ کر وقف اغیار ہو رہے ہیں تاہم روابط سابقہ کی بنا پر یہ قطعاً ہماری چیز ہیں۔" [7]

5. کم ہونا، تہ نکل آنا، (پانی کا) سطح سے گر جانا۔

؎ کوچۂ یار کی زینت ہے مری چشم پر آب

رونق باغ کہاں جب چہ گلشن ٹوٹے [8]

توڑا ہونا، کمی ہونا۔

"میں اس کا ذمہ دار ہوں گا کہ حوض لباب رہے اور پانی ٹوٹنے نہ پائے۔" [9]

نہر یا نالی کے اندر سے باہر نکل جانا، پھوٹنا، جیسے نہر کا پانی ٹوٹنا۔ (نوراللغات)

6. محروم ہو جانا۔

؎ رزق سے محروم رازق نے نہ رکھا شکر ہے

گوشت پر اپنے گرے ٹوٹے جو ہم خوراک سے، [10]

7. ناتواں ہونا، مضمحل ہونا، کمزور ہو جانا، بیماری سے ٹوٹ کر رہ جانا۔ (نوراللغات؛ فرہنگ آصفیہ)

8. مفلوک ہو جانا، مفلس ہو جانا، تنگ دست ہونا۔

(فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)

9. اعضا شکنی ہونا، جوڑوں میں درد ہونا۔ (بدن وغیرہ کے ساتھ)

؎ آنا جمائیوں کا بدن کا وہ ٹوٹنا

دشوار ایسی شکل میں ہے تیرا چھوٹنا، [11]

10. پھل اترنا، جیسے آم ٹوٹنا، شہتوت ٹوٹنا؛ بقایا میں پڑنا، خوردہ ہو جانا، ریزگاری میں تبدیل ہو جانا۔ (نوراللغات؛ فرہنگ آصفیہ)

11. نازل ہونا، واقع ہونا، پڑنا (آفت یا غضب وغیرہ)۔

؎ کیسے کچھ جور نہ کم بخت پہ ٹوٹے ہوں گے

آہ وہ دل کہ جسے حوصلۂ داد نہ ہو۔، [12]

12. تباہ ہونا، برباد ہونا، مٹ جانا، ختم ہو جانا۔

"جس وقت لوح طلسمی مل جائے گی اس وقت مرحلے ٹوٹیں گے پھر خداوند بھاگ کر کہاں جاوینگے۔"، [13]

13. تعلق باقی نہ رہنا، رشتہ منقطع ہونا، کسی کی رفاقت سے علیحدہ ہو جانا، (دوستی وغیرہ کے ساتھ)۔

"اچھے اچھے گہرے دوستوں کی مدۃ العمر کی دوستیاں اس سفر میں ٹوٹتے دیکھی ہیں۔" [14]

سلسلہ منقطع ہو جانا، (سانس وغیرہ) جاری نہ رہنا۔

؎ خیر ہو ہم عاشقوں کی عشق ہے دریائے قہر

ٹوٹنا ہے توڑ کے پانی میں دم پیراک کا [15]

14. بے ترتیب ہونا، آگے پیچھے ہونا، غیر مربوط ہو جانا، باطل ہو جانا (کلیہ، نظریہ تحریر وغیرہ کا)۔

"اتنے بڑے علم کے لیے چار ورق کا قاعدہ اور وہ بھی ایسا سڑیل اور غیر مسلسل کہ ہر قاعدہ کلیہ دس سطر کے بعد ٹوٹ جاتا ہے۔"، [16]

15. کم ہونا (قیمت وغیرہ کا)۔

؎ جنس دل کم ہوئی ہر طرح کا سودا ٹوٹا

نرخ بھی اب سر بازار کچھ اپنا ٹوٹا، [17]

16. { مجازا } (کمر وغیرہ کا) خمیدہ ہو جانا، جھک جانا۔

؎ بھائی وہ مر چکا ہے کہ تھا جس کے دم سے گھر

سیدھی ابھی ہوئی نہیں ٹوٹی ہوئی کمر، [18]

17. (لیت و لعل)قسم بھرم وغیرہ) اٹھ جانا، قائم نہ رہنا۔

؎ تراب اس کو غنیمت جان جو رسوا ہوا جگ میں

محبت میں ہوا فانی ترا چون و چرا ٹوٹا، [19]

18. موقوف ہونا، ختم ہونا۔

"اس نے کہا مجھے تپ ہے وہ تو ٹوٹ گئی مگر ابھی گردن میں درد باقی ہے۔" [20]

بند ہو جانا، ختم ہو جانا۔

"بک ڈپو ٹوٹا تو مدارس کے انسپکٹر کے عہدے پر مقرر ہوئے۔" [21]

19. گھٹنا، کم ہونا۔

"اس کے بعد مجمع بتدریج ٹوٹتا گیا اور بالآخر منتشر ہو گیا۔" [22]

انبوہ کثیر ہونا، مجمع جمع ہونا۔

"ایک خلقت ٹوٹی اور اپنے شہزادے کو شہر کے ناکے تک پہنچا آئی۔" [23]

منتشر ہونا، تتربتر ہو جانا۔

؎ ہو مقابل اس صف مژگاں سے ہے کس کا جگر

پلٹنیں ٹوٹیں جو یہ لشکر صف آرا ہو گیا [24]

وقت گزر جانا، مدت کم ہونا۔

"جب رات خاصی ٹوٹ گئی اور وہ جاگا تو بے موسمی بارش ہو رہی تھی۔" [25]

20. (روزہ، وضو) فاسد ہو جانا۔

؎ شیخ صاحب کی نماز سحری کو ہے سلام

حسن نیت سے مصلے پہ وضو ٹوٹ گیا، [26]

21. ناموزوں ہونا، شعر میں وزن نہ پایا جانا۔ (وزن شعر کے ساتھ)۔

"عین گرتا ہے، وزن ٹوٹتا ہے۔"، [27]

22. موت آنا، مرنا جیسے ٹوٹی کی بوٹی نہیں؛ (دل کے ساتھ) ناامید ہو جانا؛ (کر کے ساتھ) ناامید ہو جانا۔ حوصلہ نہ رہنا؛ لڑکا مر جانا، (بازو کے ساتھ) بھائی مر جانا۔ (جامع اللغات؛ فرہنگ آصفیہ)

23. (ہمت کے ساتھ) حوصلہ نہ رہنا، جرات نہ رہنا۔

؎ جیتا رہے وہ جس نے مجھے مار کے چھوڑا

میں آپ سے ٹوٹا نہیں خود یار نے توڑا، [28]

فعل کی حالتیں

ٹُوٹْنا {ٹُوٹ +نا}ٹُوٹْنے {ٹُوٹ +نے} ،

ٹُوٹْنی {ٹُوٹ +نی}ٹُوٹْتا {ٹُوٹ +تا} ،

ٹُوٹْتے {ٹُوٹ +تے}ٹُوٹْتی {ٹُوٹ +تی} ،

ٹُوٹْتِیں {ٹُوٹ +تِیں}ٹُوٹا {ٹُو+ٹا} ،

ٹُوٹے {ٹُو+ٹے}ٹُوٹی {ٹُو+ٹی} ،

ٹُوٹِیں {ٹُو+ٹِیں}ٹُوٹا {ٹُو+ٹا} ،

ٹُوٹے {ٹُو+ٹے}ٹُوٹیں {ٹُوٹیں(یائے مجہول)} ،

ٹُوٹُوں {ٹُوٹ + ُوں}ٹُوٹ {ٹُوٹ} ،

ٹُوٹو {ٹُو + ٹو(واؤ مجہول)}ٹُوٹْیو {ٹُوٹ+یو(واؤ مجہول)} ،

ٹُوٹْیے {ٹُوٹ+یے}

انگریزی ترجمہ ترمیم

to be broken, fractured, cracked, damaged; to be severed, sundered, dissolved (as a partnership); to break, snap in two, burst, fail (as a bank or as a supply), to fall short, be deficient or scarce; to fall into arrears, be unrealized; to breakout, fall out, befall, happen; to break loose, break forth, break in (upon), rush in, make a rush (upon), fall (upon), attack, charge, assault; to fall in torrents (as rain), be poured fourth, be rained or showered copiously; to be lavish (of money); to spend lavishly or freely; to be lost, spent; to be ruined, be reduced to; poverty; to feel pains in the bones or joints; to pine; to fall ill; to break up

مترادفات ترمیم

پھوٹنا،

مرکبات ترمیم

ٹُوٹی بانْہ

حوالہ جات ترمیم

  1. ( 1929ء، مطلع انوار، 69 )
  2. ( 1921ء، اکبر، کلیات، 750 )
  3. ( 1934ء، خیال (نصیر حسین)داستان عجم، 19 )
  4. ( 1877ء، طلسم گوہر بار، 182 )
  5. ( 1908ء، مخزن اکتوبر، 49 )
  6. ( 1900ء )
  7. ( 1906ء، افادات مہدی، 97 )
  8. ( 1846ء، آتش، کلیات، 161 )
  9. ( 1973ء، جہان دانش، 252 )
  10. ( 1836ء، ریاض البحر، 204 )
  11. ( 1920ء، لخت جگر، 430:2 )
  12. ( 1962ء، ضیائے سخن، 113 )
  13. ( 1901ء،طلسم نوخیز جمشیدی، 245:2 )
  14. ( 1930ء، سفرحجاز، عبدالماجد، 29 )
  15. ( 1836ء، ریاض البحر، 11 )
  16. ( 1887ء، خیالات آزاد، 217 )
  17. ( 1861ء، کلیات اختر، 913 )
  18. ( 1874ء، انیس، مراثی، 238:1 )
  19. ( 1851ء، تراب، کلیات، 44 )
  20. ( 1925ء، حکایات لطیفہ، 47:1 )
  21. ( 1933ء، مرحوم دہلی کالج، 166 )
  22. ( 1925ء، غدر کی صبح و شام، 252 )
  23. ( 1934ء، خیال (نصیر حسین)داستان عجم، 19 )
  24. ( 1854ء، گلستان سخن، 7 )
  25. ( 1962ء، آفت کا ٹکڑا، 280 )
  26. ( 1838ء، نصیر، چمنستان سخن، 11 )
  27. ( 1933ء، نظم طباطبائی مقدمہ، یب )
  28. ( 1858ء، تراب، کلیات، 43 )

مزید دیکھیں ترمیم